Kuliyat-e-Aatish, Khawaja Haider Ali Aatish, Poetry, کلیات آتش, خواجہ حیدر علی آتش, شاعری,

 

Kuliyat-e-Aatish, Khawaja Haider Ali Aatish, Poetry, کلیات آتشخواجہ حیدر علی آتششاعری,


Kuliyat-e-Aatish, Khawaja Haider Ali Aatish, Poetry, کلیات آتش, خواجہ حیدر علی آتش, شاعری,


آتش کا نام خواجہ حیدر علی تھا اور ان کے والد کا نام علی بخش بتایا جاتا ہے۔ ان کے بزرگوں کا وطن بغداد تھا، جو تلاش معاش میں دہلی آئے تھےاور شجاع الدولہ کے عہد میں فیض آباد چلے گئے تھے۔ آتش کی پیدایش فیض آباد میں ہوئی۔ آتش گورے چٹے، خوبصورت، کشیدہ قامت اور چھریرے بدن کے تھے۔ ابھی پوری طرح جوان نہ ہو پائے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا اور تعلیم مکمل نہ ہو پائی۔ دوستوں کی ترغیب سے درسی کتابیں دیکھتے رہے۔ کسی نگراں کی عدم موجودگی میں ان کے مزاج میں آوارگی آگئی۔ وہ بانکے اور شورہ پشت ہو گئے۔ اس زمانہ میں بانکپن اور بہادری کی بڑی قدر تھی۔ بات بات پر تلوار کھینچ لیتے تھے اور کم سنی سے تلوارئے مشہور ہو گئےتھے۔ آتش کی صلاحیتوں اور سپاہیانہ بانکپن نے نواب مرزا محمد تقی خاں ترقی، رئیس فیض آباد، کو متاثر کیا جنہوں نے ان کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ پھر جب نواب موصوف فیض آباد چھوڑ کر لکھنؤ آ گئے تو آتش بھی ان کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہو گئے۔ لکھنؤ میں اس وقت مصحفی اور انشاء کی معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر انھیں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے شاعری نسبتاً دیر سے، تقریباً 29 سال کی عمر میں شروع کی اور مصحفی کے شاگرد ہو گئے۔ لکھنؤ میں رفتہ رفتہ ان کی صحبت بھی بدل گئی اور مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور رات دن علمی مباحث میں مصروف رہنے لگے۔ مزاج میں گرمی اب بھی باقی تھی اور کبھی کبھی استاد سے بھی نوک جھونک ہو جاتی تھی۔ لکھنؤ پہنچنے کے چند سال بعد ترقی کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد آتش نے آزاد رہنا پسند کیا، کسی کی نوکری نہیں کی۔ بعض تذکروں کے مطابق واجد علی شاہ اپنے ایام شہزادگی سے ہی 80 روپے ماہانہ دیتے تھے۔ کچھ مدد مداحوں کی طرف سے بھی ہو جاتی تھی لیکن آخری ایام میں توکل پر گزارہ تھا، پھر بھی گھر کے باہر ایک گھوڑا ضرور بندھا رہتا تھا۔ سپاہیانہ، رندانہ اور آزادانہ وضع رکھتے تھے جس کے ساتھ ساتھ کچھ رنگ فقیری کا تھا۔ بڑھاپے تک تلوار کمر میں باندھ کر سپاہیانہ بانکپن نباہتے رہے۔ ایک بانکی ٹوپی بھنووں پر رکھے جدھر جی چاہتا نکل جاتے۔ اپنے زمانہ میں بطور شاعر ان کی بڑی قدر تھی لیکن انہوں نے جاہ و حشمت کی خواہش کبھی نہیں کی، نہ امیروں کے دربار میں حاضر ہو کر غزلیں سنائیں نہ کبھی کسی کی ہجو لکھی۔ استغنا کا یہ حال تھا کہ بادشاہ نے کئی بار بلوایا مگر یہ نہیں گئے۔ ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد علی اور جوش تخلص تھا۔ آتش نے لکھنؤ میں ہی 1848ء میں انتقال کیا۔ آخری عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔

 

مذہباً اثنا عشری ہونے کے باوجود آتش آزاد خیال تھے۔ ان کا خاندان صوفیوں اور خواجہ زادوں کا تھا، پھر بھی انھو ں نے کبھی پیری مریدی نہیں کی اور درویشی و فقیری کا آزادانہ مسلک اختیار کیا، وہ تصوف سے بھی متاثر تھے جس کا اثر ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ ان کا دیوان ان کی زندگی میں ہی 1845ء میں چھپ گیا تھا۔ شاگردوں کی تعداد بہت تھی جن میں بہت سے، بشمول دیا شنکر نسیم، نواب مرزا شوق، واجد علی شاہ، میر دوست علی خلیل، نواب سید محمد خان رند اور میر وزیر علی صبا اپنی اپنی طرز کے بے مثال شاعر ہوئے۔

 

اس کتاب کلیات آتش (Kuliyat-e-Aatish) کی میزبان محفوظ شدہ دستاویزات کی تنظیم  arvhive.org ہے جہاں سے مندرجہ ذیل کڑیاں ملائی گئی ہیں اور اس کتاب کو اجازت نامہ Public Domain Mark 1.0 کے تحت تقسیم کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ لائسنس کے کسی مسئلے یا معلومات کی صورت میں متعلقہ میزبان تنظیم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

 



نام کتاب، Book Name

Kuliyat-e-Aatish

قاموس – الفاظ و اصطلاحات قرآن

مصنف، Author

Khawaja Haider Ali Aatish

خواجہ حیدر علی آتش

 

 

صفحات، Pages

404

حجم، Size

31.40 MB

ناشر(ان)، Publisher(s)

 

مطبع، Printers

 

 

 

Read Book – Kuliyat-e-Aatish

Download Book – Kuliyat-e-Aatish

 


Post a Comment

0 Comments