Daagh, Novel, Bint-e-Nazeer, داغ, بنت نذیر, ناول,

 Daagh, Novel, Bint-e-Nazeer, داغ, بنت نذیر, ناول,


خزاں کے موسم میں

 اکثر تنہائی میں بیٹھ کر،

میں اپنی ذات ڈھونڈتی ہوں،

جس پہ کیا مجھے زمانے نے سنگسار،

 میں وہ گناہ ڈھونڈتی ہوں،

نہ ہوں جہاں غم اور یہ ویرانیاں،

 میں اس نگر جانے کی راہ ڈھونڈتی ہوں،

مٹانے سے بھی جو مٹ نہ سکا،

اپنی ذات پہ لگا وہ داغ ڈھونڈتی ہوں۔

 

وہ کب سے وہاں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ سردی کی وجہ سے اسکا جسم اکڑ رہا تھا ہونٹ نیلے ہو گئے تھے۔ مگر اسے کب پرواہ تھی۔ باہر سے زیادہ اسکے اندر کا موسم سرد اور اداس تھا۔ درختوں کے زرد پتے اس کے آس بکھرے ہوئے تھے وہ آنکھیں موندھے درخت کے ساتھ ٹیک لگائے اس شام کے اداس منظر کا حصہ لگ رہی تھی۔ قدموں کی آہٹ اور چھڑی کی ٹک ٹک کی آواز سے اس نے آنکھیں کھولی۔ نصرت بیگم اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھیں۔

 کتنی آوازیں دی ہیں تمہیں سنائی دیتا ہے کہ نہیں۔

وہ گود میں سے اپنی ڈائری اور قلم اٹھا کر کھڑی ہوگئی۔

نواز علی کا فون آیا تھا۔ وہ خالد اور اشعر کے ساتھ آرہا ہے۔ تم گلزار بی کیساتھ کھانا بنوا دو۔

جی دادو۔ وہ ان کی ہمراہی میں چلتی ہوئی لان میں داخل ہوئی۔

نصرت بیگم اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔۔۔۔





Post a Comment

0 Comments