Narial Ka Phool, A. Hameed, Novel, ناریل کا پھول, اے حمید, ناول,

 Narial Ka Phool, A. Hameed, Novel, ناریل کا پھول, اے حمید, ناول, 


جب گلاب کی پنکھڑیوں میں چھپے ہوئے میٹھے شہد کی خوشبو جنگل میں اڑتی ہے اور آم کے درختوں پر آیا ہوا بور اپنا شیریں رس زمین پر ٹپکانے لگتا ہے تو بھنوروں کی ٹولیاں بے قرار ہو کر ان کی تلاش میں چل نکلتیں ہیں۔ اسی طرح ایک رات جنوبی سمندروں کی مرطوب ہوا ہمارے شہر میں سے گزری تو میں چھت پر لیٹے لیٹے بے تاب ہو کر اٹھ بیٹھا۔ اس ہوا میں سمندر کے کنارے اگے ہوئے ناریل کے درختوں کی خوشبو تھی۔ یہ ہوا مدراس کی طرف سے آرہی تھی۔ ساحل کا رومنڈل سے بھی دور کولمبو سے آرہی تھی۔ جزیرہ لنکا کے گھنے جنگلوں کی طرف سے آرہی تھی۔ میں نے سرہانے کے نیچے سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور اپنی چارپائی پر آلتی پالتی مار کو گوتم بدھ کی طرھ بیٹھ گیا۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور چپکے چپکے سگریٹ پیتا رہا۔ کوئی پانچ منٹ بعد مجھے گیان مل گیا۔ میں نے سگریٹ دوسرے مکان کی چھت پر پھینک دیا اور اندھیری رات کے آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں کو دیکھ کر کہا۔

"کولمبو چلو"

جن دنوں میں پانچویں چھٹی جماعت میں پڑھا کرتا تھا میں نے اردو کی کتاب میں لنکا کی ایک تصویر دیکھی تھی۔ اس تصویر میں کیلے کے چوڑے چوڑے پتوں کی بیچ میں ایک چھونپڑی تھی جس کے باہر دو عورتیں زرد کیلوں کے گجھے اٹھائے کھڑی تھیں۔ ان عورتوں کا رنگ براؤن تھا۔ اور بدن کے گرد صرف ایک دھوتی لپیٹ رکھی تھی۔ ان کے چہرے بڑے اداس تھے۔ اس تصویر نے میرے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا تھا اور میں نے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ بڑے ہو کر اس ملک کی سیر کو ضرور نکلوں گا۔ جہاں کیلے کے درختوں کے جھنڈ ہوتے ہیں۔


Read Novel

Post a Comment

0 Comments