Khazan ka Geet, A. Hameed, Novel, خزاں کا گیت, اے حمید, ناول,

 Khazan ka Geet, A. Hameed, Novel, خزاں کا گیت, اے حمید, ناول,


بھاٹی دوازے کے باہر میں شاہدرہ جانے والی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ رسالہ "آثار قدیمہ" کے ایڈیٹر کا خرید کر دیا ہوا بلیک اینڈ وائٹ سگریٹوں کا ڈبہ میرے لمبے کوٹ کی جیب میں تھا اور ایک سگریٹ میرے داہنے ہاتھ کی انگلیوں میں سلگ رہا تھا۔ میں شاہدرے مجھلیاں پکڑنے یا مقبرے کی دیواروں پر اپنا نام لکھنے نہیں بلکہ نورجہاں پر ایک افسانہ لکھنے جا رہا تھا جسے آثار قدیمہ کے پہلے شمارے میں چھپنا تھا۔ ایڈیٹر نے سگرٹوں کا ڈبہ تھماتے ہوئے تاکید کی تھی کہ افسانہ کافی سنسنی خیز ہونا چاہیئے اور میرے اندر سنسنی دوڑ گئی تھی۔ بس کا دور دور تک نشان نہ تھا اور قریب قریب سبھی لوگ انتظار سے تند آچکے تھے۔ چند ایک دیہاتی عورتیں زمین پر بیٹھ گئی تھیں اور پوٹلی میں سے گڑ اور روٹی نکال کر وہیں کھانے لگی تھیں۔ بھرپور جاڑے کا یہ بڑا ہی چمکیلا دن تھا۔ دھوپ ڈھل رہی تھی اور اس کی نارنجی چمک میں بازار کی ہر شے نکھر رہی تھی۔

 

چوک میں لوگوں کا ہجوم تھا اور ان کے چہرے دھوپ میں روغنی معلوم ہو رہے تھے۔ عجیب عجیب چہرے، میلے میلے اور صاف صاف کپڑوں والے لوگ، تانگوں سائیکلون، موٹروں اور چھکڑوں سے بچتے بچاتے منہ اٹھائے چلے جارہے تھے۔ سامنے والی سینما گھر کے باہر کافی بھیڑ تھی۔ اور کیوں نہ ہو ماسٹر بھگوان کا تیار کردہ لڑائی مار کٹائی سے بھرپور فلم "جادو رتن عرف بھوتنی" کا چل رہا تھا۔ کوچوان تانگوں میں گلہ پھاڑ پھاڑ کر موری دروازے، شاہ عالمی دروازے اور موجی دروازے جانے  والی سواریوں کو پکار رہے تھے۔ سپاہی انہیں ایک جگہ رکنے نہ دیتا تھا مگر وہ بھی ہٹ کے پکے تھے چوک کا پورا چکر کاٹتے اور پھر اسی جگہ آن کھڑے ہوتے۔ عورتیں۔ بوڑھی عورتیں، ادھیڑ عمر عورتیں، نوجوان لڑکیاں، کوئی کھلے منہ، کوئی خالی گرم شال لئے اور کوئی برقع اوڑھے بھاٹی دروازے میں داخل ہو رہی تھی۔

Read Novel

Post a Comment

0 Comments