Jahannum Ke Pujari, A. Hameed, Novel, جہنم کے پجاری, اے حمید, ناول,

 Jahannum Ke Pujari, A. Hameed, Novel, جہنم کے پجاری, اے حمید, ناول,


قبرستان کی سنسان اندھیری رات! یہ مسلمانوں کا قبرستان معلون نہیں ہوتا۔ قبروں پر جو کتبے لگے ہیں وہ تکونے اور چوکور ہیں۔ محراب نما نہیں۔ کسی کتبے پر اللہ رسول اللہ ﷺ پاک کا مبارک نام نہیں لکھا ہوا، بلکہ ہر کتبہ پر انسانی کھوپڑی کا نشان بنا ہوا ہے۔ اس نشان کے نیچے مرنے والے کا نام اور تاریخ وفات لکھی ہوئی ہے۔ یہ کسی اور ہی قوم، کسی اور ہی فرقے کے لوگوں کا قبرستان لگتا ہے۔ یہ بڑا پرانا قبرستان ہے، قبروں کی حالت بے حد شکستہ ہو رہی ہے۔ کئی قبروں کے کتبے گرے ہوئے ہین جو گرنے سے بچ گئے ہیں وہ ٹیڑھے ہو کر ایک طرف کو جھک گئے ہیں۔ قبرستان ایک چار دیواری میں گھرا ہوا ہے۔ یہ چار دیواری خستگی کا شکار ہے اور جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ قبروں کو جانے والا راستہ ایک ڈیوڑھی میں سے ہو کر گزرتا ہے جس میں دن کے وقت بھی اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ ڈیوڑھی کی پیشانی پر بھی کھوپڑی کا نشان بنا ہوا ہے۔ ایک جنگلی بیل نے ڈیوڑھی کی آدھی دیوار کو ڈھانپ رکھا ہے۔ قبروں کے اوپر عجیب شکل والے ڈراونے درختوں کے بے برگ و بار سوکھی ٹہنیاں اپنے پنچے پھیلائے جھکی ہوئ ہیں۔

 

آدھی رات کا وقت ہے۔ شاید مہینے کی سب سے تاریک رات ہے۔ اندھیرے میں قبرون پر چھکے ہوئے تکونے اور چوکور کتبے سایوں کی طرح لگ رہے ہیں، جو قبروں کے اوپر جھک کر ساکت ہو گئے ہیں۔ ہر طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہے۔ ایک پراسرار سی دھند چاروں طرف پھیلی ہوئ ہے جس نے قبرستان کی ماتمی فضا کو اور زیادہ سوگوار بنا دیا ہے۔ اس خاموشی اور سناٹے میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد دبی دبی گھٹی گھٹی ایک انسانی آواز سنائی دےجاتی تھی۔ کبھی یہ آواز ایک لمبی کراہ میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ ایک لمح کے لئے یہ آواز خاموش ہو جاتی، اس کے بعد ٹھک ٹھک کی آواز آنے لگتی۔ جیسے کوئی لکڑی کے کسی تختے کو اکھاڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ قبرستان کی پر اسرار خاموشی میں یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی آواز ایک قبر سے آرہی تھی۔ یہ تازہ بنی ہوئی قبر تھی۔ لگتا تھا کسی میت کو وہاں دفن کئے ہوئے چھ سات گھنٹے ہی گزرے ہیں۔ چھڑکاؤ کی وجہ سے قبر کی مٹی ابھی تک گیلی تھی اور اس پر چند ایک تازہ پھولوں کے ہار پڑے تھے۔ آواز اسی قبر کے اندر سے آرہی تھی۔


Read Novel

Post a Comment

0 Comments