Shikari Auratein, Saadat Hassan Manto, Fictions, شکاری عورتیں, سعادت حسن منٹو, افسانے,

 Shikari Auratein, Saadat Hassan Manto, Fictions, شکاری عورتیں, سعادت حسن منٹو, افسانے, 


میں آج آپکو چند شکاری عورتوں کے قصے سناؤں گا میرا خیال ہے کہ آپکو بھی کبھی ان سے واسطہ پڑا ہو گا۔

میں بمبئی میں تھا فلمستان سے عام طور پر برقی ٹرین سے چھ بجے گھر پہنچ جایا کرتا تھا لیکن اس روز مجھے دیر ہو گئی اسلیے کہ ” شکاری ” کی کہانی پر بحث مباحثہ ہوتا رہا۔
میں جب بمبئے سنٹرل کے اسٹیشن پر اترا تو میں نے ایک لڑکی کو دیکھا جو تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ سے باہر نکلی اسکا رنگ گہرا سانولا تھا، ناک نقشہ ٹھیک تھا جوان تھی، اسکی چال بڑی انوکھی سی تھی ایسا لگتا تھا کہ وہ فلم کا منظر لکھ رہی ہے۔
میں اسٹیشن سے باہر آیا اور پل پر وکٹوریہ گاڑی کا انتظار کرنے لگا میں تیز چلنے کا عادی ہوں اسلیے میں دوسرے مسافروں سے بہت پہلے باہر نکل آیا تھا۔
وکٹوریہ آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا میں نے کوچوان سے کہا کہ آہستہ آہستہ چلے اسلیے کہ فلمستان میں کہانی پر بحث کرتے کرتے میری طبیعت مکدر ہو گئی تھی۔ موسم خوشگوار تھا وکٹوریہ والا آہستہ آہستہ پل پر سے اترنے لگا۔
جب ہم سیدھی سڑک پر پہنچے تو ایک آدمی سر پر ٹاٹ سے ڈھکا ہوا مٹکا اٹھائے صدا لگا رہا تھا۔” قلفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلفی۔”
جانے کیوں میں نے کوچوان سے وکٹوریہ روک لینے کیلئے کہا اور اس قلفی بیچنے والے سے کہا کہ ایک قلفی دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اصل میں اپنی طبیعت کا تکدر کسی نہ کسی طرح دور کرنا چاہتا تھا۔

اس نے مجھے ایک دونی میں قلفی دی میں کھانے ہی والا تھا کہ اچانک کوئی دھم سے وکٹوریہ میں آن گھسا۔ کافی اندھیرا تھا میں نے دیکھا تو وہی گہرے رنگ کی سانولی لڑکی تھی۔
میں بہت گھبرایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی دونے میں میری قلفی پگھلنا شروع ہو گئی۔
اس نے قلفی والے سے بڑے بے تکلف انداز میں کہا” ایک مجھے بھی دو”
اس نے دیدی۔
گہرے سانولے رنگ کی لڑکی نے اسے ایک منٹ میں چٹ کر دیا اور وکٹوریہ والے سے کہا” چلو”
میں نے اس سے پوچھا” کہاں”؟
جہاں بھی تم چاہتے ہو”
مجھے تو اپنے گھر جانا ہے”
تم ہو کون؟
کتنے بھولے بنتے ہو؟
میں سمجھ گیا کہ وہ کس قماش کی لڑکی ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا” گھر جانا ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ وکٹوریہ بھی غلط ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ٹیکسی لے لیتے ہیں۔
وہ میرے اس مشورے سے بہت خوش ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کہ اس سے نجات کیسے حاصل کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے دھکا دیکر باہر نکالتا تو ادھم مچ جاتا پھر میں نے یہ سوچا کہ عورت ذات ہے اس سے فائدہ اٹھا کر کہیں وہ یہ واویلا نہ مچا دے کہ میں نے اس سے ناشائستہ مذاق کیا ہے۔
وکٹوریہ چلتی رہی اور میں سوچتا رہا کہ یہ مصیبت کیسے ٹل سکتی ہے آخر ہم بے بی ہسپتال کے پاس پہنچ گئے وہاں ٹیکسیوں کا اڈہ تھا میں نے وکٹوریہ والے کو اسکا کرایہ ادا کیا اور ایک ٹیکسی لے لی ہم دونوں اس میں بیٹھ گئے۔
ڈرائیور نے پوچھا۔” کدھر جانا ہے صاحب ”
میں اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا تھوڑی دیر سوچنے کیبعد میں نے اس سے زیرلب کہا۔” مجھے کہیں بھی نہیں جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لو دس روپے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لڑکی کو تم جہاں بھی لے جانا چاہو لے جاؤ۔ وہ بہت خوش ہوا۔
دوسرے موڑ پر اس نے گاڑی ٹھہرائی اور مجھ سے کہا” صاحب آپکو سگریٹ لینے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ایرانی کے ہوٹل سے سستے مل جائینگے۔
میں فوراً دروازہ کھول کر باہر نکلا گہرے رنگ کی لڑکی نے کہا” دو پیکٹ لانا”۔
ڈرائیور اس سے مخاطب ہوا” تین لے آئینگے اور اس نے موٹر اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔
*****************************************************
بمبئی کا ہی واقعہ ہے میں اپنے فلیٹ میں اکیلا بیٹھا تھا میری بیوی شاپنگ کیلئے گئی ہوئی تھی کہ ایک گھاٹن جو بڑے تیکھے نقشوں والی تھی بے دھڑک اندر چلی آئی میں نے سوچا شاید نوکری کی تلاش میں آئی ہے مگر وہ آتے ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکالا اور اسے سلگا کر مسکرانے لگی۔
میں نے اس سے پوچھا” کون ہو تم؟”
” تم پہچانتے نہیں۔”
میں نے آج پہلی دفعہ تمہیں دیکھا ہے۔
سالا جھوٹ مت بول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو روز دیکھتا ہے۔”
میں بڑی الجھن میں گرفتار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تھوڑی دیر کیبعد میرا نوکر فضل دین آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اس تیکھے نقشوں والی گھاٹن کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
*****************************************************
یہ واقعہ لاہور کا ہے۔
میں اور میرا ایک دوست ریڈیو اسٹیشن جا رہے تھے جب ہمارا تانگہ اسمبلی ہال کے پاس پہنچا تو ایک تانگہ ہمارے عقب سے نکل کر آگے آ گیا اس میں ایک برقع پوش
عورت تھی جس کی نقاب نیم وا تھی۔
میں نے اسکی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی شرارت ناچنے لگی میں نے اپنے دوست سے جو پچھلی نشست پر بیٹھا تھا کہا۔” یہ عورت بدچلن معلوم ہوتی ہے۔”
” تم ایسے فیصلے ایکدم مت دیا کرو”
” بہت اچھا جناب! میں آئندہ احتیاط سے کام لوں گا”
برقع پوش عورت کا تانگہ ہمارے تانگے کے آگے آگے تھا وہ ٹکٹکی لگائے ہمیں دیکھ رہی تھی میں بڑا بزدل ہوں لیکن اسوقت مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے آداب عرض کر دیا۔
اسکے آدھ ڈھکے چہرے پر مجھے کوئی ردعمل نظر نہ آیا جس سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔
میرا دوست کہنے لگا اسکو میری اس ناکامی سے بڑی مسرت ہوئی لیکن جب ہمارا تانگہ شملہ پہاڑی کے پاس پہنچ رہا تھا تو اس برقع پوش عورت سے کوئی بات نہ کی اور تانگے والے سے کہا کہ وہ ریڈیو اسٹیشن کا رخ کرے۔
میں اسے اندر لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈائریکٹر صاحب سے میرے دوستانہ مراسم تھے میں نے ان سے کہا۔ ” یہ خاتون ہمیں رستے میں پڑی ہوئی مل گئی آپکے پاس لے آیا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ انہیں یہاں کوئی کام دلوا دیجیے۔
انہوں نے اس کی آواز کا امتحان کرایا جو کافی اطمینان بخش تھا جب وہ آڈیشن دیکر آئی تو اس نے برقع اتارا ہوا تھا میں نے اسے غور سے دیکھا اسکی عمر پچیس کے قریب ہو گی۔ رنگ گورا آنکھیں بڑی بڑی لیکن اسکا جسم ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے شکرقندی کیطرح بھوبل میں ڈال کر باہر نکالا گیا ہے۔
ہم باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں چپڑاسی آیا اس نے کہا کہ باہر ایک تانگہ والا کھڑا ہے وہ کرایہ مانگتا ہے میں نے سوچا شاید زیادہ عرصہ گزرنے پر وہ تنگ آ گیا ہے چنانچہ میں باہر نکلا میں نے اپنے تانگے والے سے پوچھا ” بھئی کیا بات ہے ہم کہیں بھاگ تو نہیں گئے”
وہ بڑا حیران ہوا” کیا بات ہے سرکار”
تم نے کہلا بھیجا ہے کہ میرا کرایہ ادا کرو”
میں نے جناب کسی سے کچھ بھی نہیں کہا”
اسکے تانگے کیساتھ ہی ایکدوسرا تانگہ کھڑا تھا اسکا کوچوان جو گھوڑے کو گھاس کھلا رہا تھا میرے پاس آیا اور کہا ” وہ عورت جو آپکے ساتھ گئی تھی” وہ کہاں ہے؟
اندر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟
جی اس نے دو گھنٹے مجھے خراب کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ادھر جاتی تھی کبھی ادھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اسکو معلوم ہی نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا ہے”
اب تم کیا چاہتے ہو؟
جی میں اپنا کرایہ چاہتا ہوں۔
میں اس سے لے کر آتا ہوں۔
میں اندر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس برقع پوش عورت سے جو اپنا برقع اتار چکی تھی کہا” تمہارا تانگے والا کرایہ مانگتا ہے۔
وہ مسکرائی” میں دیدونگی۔
میں نے اسکا پرس جو صوفے پر پڑا تھا اٹھایا اور اسکو کھولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس میں ایک پیسہ بھی نہیں لیا تھا بس کے چند ٹکٹ تھے اور دو بالوں کی پنیں۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک واہیات قسم کی لپ اسٹک۔
میں نے وہاں ڈائریکٹر کے دفتر میں کچھ نامناسب نہ سمجھا۔ ان سے رخصت طلب کی باہر آکر اسکے تانگے والے کو دو گھنٹوں کا کرایہ ادا کیا اور اس عورت کو اپنے دوست کی موجودگی میں کہا، تمہیں اتنا خیال ہونا چاہیے کہ تم نے تانگہ لے لیا ہے اور تمہارے پاس ایک کوڑی بھی نہیں۔
وہ کھسیانی ہو گئی” میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ بڑے اچھے آدمی ہیں۔ ”
” میں بہت برا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بڑی اچھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل سے ریڈیو اسٹیشن آنا شروع کر دو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری آمدن کی صورت پیدا ہو جائیگی یہ بکواس جو تم نے شروع کر رکھی ہے اسے ترک کر دو۔
میں نے اسے مزنگ کے پاس چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دوست چا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتفاقاً مجھے ایک کام سے وہاں جانا پڑا۔
دیکھا کہ میرا دوست اور وہ عورت اکٹھے جا رہے تھے۔


Download

Post a Comment

0 Comments