Nashaib, Abdullah Hussain, Novel, نشیب, عبد اللہ حسین, ناول,

 Nashaib, Abdullah Hussain, Novel, نشیب, عبد اللہ حسین, ناول,


ان دنوں میں ہم اپنا اپنا کھان ساتھ لے کر جاتے تھے اور دوپہر کے وقفے میں سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے۔ دفتر میں مجھ سمیت کل سات آدمی تھے۔ تین کلرک، ایک ڈسپیچر، ایک ٹائپسٹ، ایک چپڑاسی اور سب کے اوپر ایک ہیڈ کلرک۔ چنانچہ جب بارہ کا گھنٹہ بجتا تو ہم کام چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہو تے اور دو میزوں کو جوڑ کر اپنے اپنے کھانے کے ڈبے ان پر لا رکھتے۔ پھر ہم پانچوں اپنی اپنی کرسیاں اٹھا کر ان کے گرد لے آتے اور بیٹھ کر کھانا شروع کر دیتے۔ جتنی دیر تک ہم کھاتے رہتے چپراسی پاس کھڑا مستعدی سے ہر ایک کو پانی پہنچاتا رہتا۔ وہ چپراسی مجھے اب تک یاد ہے۔ کلرک کے عہدے سے ترقی کرتے کرتے میں ڈپٹی سیکریٹری بن گیاہوں اور اس دوران میں کوئی دو درجن چپراسیوں سے میرا واسطہ پڑ چکا ہے۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ ایسا ذھین چپراسی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس کو ہمارے بارے میں قطعی طور پر علم تھا کہ کون کون کھانے کے دوران میں کس کس وقت پر پانی پینے کا عادی تھا۔ مثلا یہ کہ ٹائپسٹ اوسطا ہر پانچ لقموں کے بعد آدھا گلاس پانی پیتا تھا اور یہ ک ڈسپیچر ایک گلاس کھانا شروع کرنے سے پہلے اور ایک کھانا ختم کرنےکے بعد چڑھاتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ وہ یہ ظاہر کیے بغیر کہ وہ ہمارا بغور مطالعہ کر رہا ہے۔ باری باری ہر ایک کے پاس اس کے مقررہ وقت پر بغیر مانگے ہوئے پانی کا گلاس لے کر پہنچ جیا کرتا۔ اپنے اس معمول پر وہ اس قدر سختی سے عمل کرتا کہ اگر کوئی بلا توقع اس سے پانی مانگ بیٹھتا توہ وہ اس کے طرف، اور پھر باری باری سب کی طرف، اس اچنبھے سے دیکھتا کہ مانگنے والا پانی پیے بغیر نادم ہو کر بات کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرنے لگتا۔ اس کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ گو میں نیا نیا دفتر میں نوکر ہوا تھا مگر چند ہی روز میں وہ میری اس عادت سے کہ میں کھانے کے ساتھ کبھی پانی نہیں پیتا بخوبی واقف ہو چکا تھا اور جب تک میں کھاتا رہتا میرے نزدیک بھی نہ پھٹکتا تھا۔ وہ ہماری عادتوں کے مطابق کام کرتا تھا یا کہ ہم اس کے کام کے مطابق اپنی عادات وٖضع کر چکے تھے۔ اس بات کا میں کبھی فیصلہ نہ کر سکا جب ہو کھانا ختم کر لیتے تو وہ سب ڈبوں کو بند کرتا

Download Part 1

Download Part 2

Post a Comment

0 Comments