Shahab Nama by Qudratullah Shahab - شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب

 



Shahab Nama is an Urdu autobiography by renowned Pakistani writer and diplomat Qudrat Ullah Shahab. It is an eyewitness account of the background of the subcontinent's Muslims' independence movement and of the demand, establishment and the history of Pakistan. The 1248-page long book was published posthumously in 1987, shortly after Shahab's death. It is his most notable publication and a bestselling Urdu autobiography.


It covers his childhood, education, work life, admission to Imperial Civil Service, thoughts about Pakistan and his religious and spiritual experiences. Mushfiq Khwaja, a close friend of Shahab, was one of those who criticized the book for its exaggerations, inaccuracies and stretched truths. Considering Shahab's reputation as a man of integrity and a Sufi, Dawn wrote that "he mainly told the truth but there were things that he stretched."


شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت کہانی ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے۔ جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے ابتدائییہ میں لکھا ہے کہ،
میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے۔

جو لوگ قدرت اللہ شہاب کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ یہ ایک سادہ اور سچے انسان کے الفاظ ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب میں وہی واقعات لکھے ہیں جو براہ راست ان کے علم اور مشاہدے میں آئے اس لیے واقعاتی طور پر ان کی تاریخی صداقت مسلم ہے۔ اور بغیر تاریخی شواہد یا دستاویزی ثبوت کے ان کی صداقت میں شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ حقائق کی تشریح و تفسیر یا ان کے بارے میں زاویہ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر شہاب نامہ کے چار حصے ہیں:

1. قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم
2. آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت
3. پاکستان کے بارے میں تاثرات
4. دینی و روحانی تجربات و مشاہدات

ان چاروں حصوں کی اہمیت جداگانہ ہے لیکن ان میں ایک عنصر مشترک ہے اور وہ ہے مصنف کی مسیحائی۔ وہ جس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں وہ لفظوں کے سیاہ خانوں سے نکل کر قاری کے سامنے وقوع پزیر ہونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ جس کردار کا نقشہ کھینچتے ہیں وہ ماضی کے سرد خانے سے نکل کر قاری کے ساتھ ہنسنے بولنے لگتا ہے۔

اس کتاب میں ادب نگاری کی شعوری کوشش نظر نہیں آتی۔ بے ہنری کی یہ سادگی خلوص کی مظہر ہے اور فنکاری کی معراج، یہ تحریر ایمائیت کا اختصار اور رمزیت کی جامعیت لیے ہوئے ہے۔ کتاب کا کے نوس اتنا وسیع ہے کہ اس کی لامحدود تفصیلات اور ان گنت کرداروں کی طرف اجمالی اشارے ہی کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اشارے بھر پور ہیں۔


Post a Comment

0 Comments