Ya Khuda, Qudratullah Shahab, Short Stories, یا خدا, قدرت اللہ شہاب, مختصر کہانی

 





It's a good 'long short story' or a novelette by Qudratullah Shahab who also served in Pakistan's early bureaucratic offices. What most progressive writers and critics don't find impressive in Ya Khuda is his choice of Muslim characters as victims although exploited equally or even more by the Muslim opportunists as well. The story written in 1948 might have been influenced by the personal tragedy of the writer who lost family members in the Hindu-Muslim riots and who was holding high government offices. What needs to be appreciated however is that even his sense of patriotism is not distinct from humane values. He poses tough questions in front of the proud citizens of the newly established state. A perspective missed by the critics can be of feminism as Ya Khuda mainly focuses on the exploitation of female victims who were raped and abused on both sides of the border!


If you have read prominent Urdu short stories on partition and violence from the progressive camp, you should also try this one. 


میں نے کتاب خریدی پڑھنا شروع کیا ، شہاب صاحب کو خدا نے زورِ قلم عطاء کیا تھا ان کی کتاب نے مجھے جکڑے رکھا انہوں نے ” یاخدا” کو اک نشت میں لکھا تھا میں نے اک نشت میں پڑھ ڈالی


شہاب صاحب نے ان مظالم سے پڑڈہ اٹھایا ہے جن کو اکثر چھپایا جاتا ہے آپ نے مہاجروں پر ہونے والے مظالم پر لکھا ان مظالم پر جو بوقتِ بٹوارہ ان پر کیے گئے


ماں بہن بیٹیوں پر کسطرح انور، مجید ، شفیق، کرتار سنگھ، کمار سنگھ ، لبھو رام ( یہ سب فرضی نام ہیں) نے مظالم ڈھائے کس طرح یہ سب مہاجروں کی ٹرینوں کا انتظار کرتے ان میں موجود بہن بیٹیوں کو مقدس سرزمین کے خواب دکھا کر ان کے گوشت سے کھیلتے یعنی


” دونوں طرف کے بہادروں نے آنے والے مہاجروں کی یکساں مدد کی”


“مسلمانوں نے اپنے اعمال سے ثابت کی کہ قائد نے ریاست بنائ تھی ۔۔۔۔مسجد نہیں “


انیس سو سینتالیس اب بھی ختم نہیں ہوا کشمیریوں کی جنت میں اب بھی جہنم کے شعولے بھڑک رہے ہیں لاکھوں بہن بیٹیاں عصمت دری کا شکار ہوچکی ہیں اور ہورہی ہیں


“آُپ لاہور کا آشیانہ سکینڈل دیکھیں یہ لاہور وہی لاہور ہے جو انیس سو سینتالیس کا تھا”


مسجد میں بیٹھے بابا جی کہ بعد آج ” یاخدا” پڑھ کے مجھے دوسری گواہی بھی مل گئ کہ


” جہاں جس کو موقع ملا ، جہاں جس کے پاس طاقت تھی اس نے ظلم و جبر کی تاریخ رقم کی “

اور اس بات کو سچ ماننے کیلیے شاید دو گواہیاں کافی ہوں بقول شاعر


” زبانِ خلق کو خدا کا نقارہ سمجھ “


Download



Post a Comment

0 Comments