Namal by Nemrah Ahmad - نمل از نمرہ احمد

 Namal by Nemrah Ahmad - نمل از نمرہ احمد




’میں نے جو آپ کی کتاب سے سیکھا تھا ‘ اسے اپنی زندگی پہ اپلائی کیا۔ جس علم کو اپلائی ہی نہ کیا جائے وہ تو ایسے ہے جیسے گدھے پہ کتابیں لاد دی گئی ہوں۔ ایسا علم بوجھ بن جاتا ہے۔میں نے ‘ اے شیخ ‘ آپ کی کتاب ختم کر لی اور میں اب اس کے آخری باب کے متعلق بات کرنے آئی ہوں۔‘‘
’’پھر ....کیا سیکھا تم نے میری کتاب سے ؟‘‘
’’میں نے یہ سیکھا کہ ہر انسان vulnerable ہے۔ اس کے اردگرد کا موسم ایک سا نہیں رہتا۔کبھی موسم بدلتا ہے تو ہوا میں گردش کرتے مختلف وائرس اسے آ کر جکڑ لیتے ہیں۔ ایسے ہی ماحول بھی بدلتا رہتا ہے ۔ نئے ماحول ‘ نئی یونیورسٹی کالج ‘ نیا موبائل فون ‘ ان سب عناصر کے باعث اسے مرضِ عشق کا وائرس آن لگتا ہے۔ اس میں اس کا قصور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کیا کرتا ہے ‘ یہاں سے اس کا امتحان شروع ہوتا ہے۔‘‘
’’تو تمہارے خیال میں پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ درس کا وقت ختم ہو چکا تھا اور امتحان شروع ہو چکا تھا ۔ استاد نے تختیاں پرے ہٹا دیں اور پوری توجہ سے اس کا جواب سننے لگے۔وہ کہہ رہی تھی ۔
’’اسے دو کام کرنے چاہئیں۔ پہلا غضِ بصر ۔ نظر جھکانا۔ وہ شخص جس کی وجہ سے دل ڈسٹرب ہے ‘ اس سے اگر کوئی حلال تعلق نہیں ہے تو اسے اپنی زندگی سے نکال باہر پھینکنا ۔ سارے تعلق ‘ سارے روابط کاٹ دینے چاہئیں۔ پھر اس کی یادوں‘ اس کی تصویروں ‘ اس کے میسیجز ‘ ای میلز‘ کسی کو بھی دوبارہ نہ پڑھیں۔ یوں نظر محفوظ ہو گی تو دل بھی محفوظ ہو گا۔‘‘
’’اور دوسرا طریقہ؟‘‘
’’ صرف نظر کی حفاظت کرنا کافی نہیں۔ دل کا دھیان بھی بٹانا ہو گا۔ عشق عشق کو کاٹتا ہے ‘ محبت محبت کو کاٹتی ہے۔ آپ کی کتاب کا آخری باب کہتا ہے کہ اپنے دل میں سب سے بڑی محبت ....الله کی محبت بسائی جائے ‘ وہ ہمارے دل کو اتنا مضبوط کر دے گی کہ ہم اس شخص کی طرف نہیں لپکیں گے ۔‘‘
’’کیا تمہیں اس بات سے اختلاف ہے؟‘‘
’’نہیں۔ ہرگز نہیں۔ لیکن مجھے ایک اعتراف بھی کرنا ہے۔ کئی سال پہلے علیشا نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا مجھے خدا سے محبت ہے؟ میں نے کہا تھا ‘ پتہ نہیں۔آج ‘ اتنی ٹھوکریں کھا کر بھی میں نہیں جان سکی کہ الله سے محبت کسے کہتے ہیں۔وہ کیسے کی جاتی ہے۔ میں نمازیں پڑھتی ہوں اور لوگوں کو دھوکے نہ دینے کی کوشش بھی کرتی ہوں‘ مگر ابھی تک میں الله تعالیٰ سے وہ محبت نہیں کر سکی جو کرنا چاہیے تھی ۔ میں سمجھتی تھی کہ آخر میں جا کر میں اس محبت کو سمجھ جاؤں گی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اور میں یہی بتانا چاہتی ہوں آپ کو۔ الله کی طرف جاتا راستہ بہت طویل ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کے آخر تک پہنچ جائیں‘ اس کو پار کر لیں۔ ضروری صرف یہ ہے کہ جب ہمیں موت آئے تو ہم اسی راستے پہ ہوں چاہے لڑکھڑا رہے ہوں‘ چاہے گر پڑ کر آگے بڑھ رہے ہوں‘ مگر اس سیدھے راستے پہ ر ہیں۔ اپنے گناہوں کو دلیلیں دے دے کر جسٹی فائی نہ کرتے پھریں۔جب دل میں کچھ کھٹک رہا ہو تو توبہ کر کے اپنے اعمال درست کر لیں اور راستہ سیدھا کرلیں۔ ہمارا مستقبل کورا ہے ‘ ماضی جیسا بھی داغدار ہو بھلے۔مستقبل کو ہم اپنی مرضی سے لکھ سکتے ہیں۔‘‘
’’اور الله سے محبت ؟‘‘ انہوں نے یاد دلایا ۔ حنین نے گہری سانس لے کر....سر اٹھا کے دور تک پھیلے کھجور کے درختوں کو دیکھا۔
’’وہ ویسی نہیں کر سکی جیسے کرنی چاہیے۔ مگر مجھے ان چیزوں سے محبت ہو گئی ہے جن سے الله کو محبت ہے۔ مجھے نماز اور قرآن سے محبت ہو گئی ہے ‘ اور مجھے الله تعالیٰ سے بات کرنا ‘ دعا مانگنا اچھا لگنے لگا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر الله سے محبت میں ولیوں اور نیک لوگوں جیسی نہ بھی ہو سکی ‘ تب بھی میں ایسے اچھے کام کرتی رہوں گی جن سے کم از کم وہ تو مجھ سے محبت کرے گا نا ۔‘‘ وہ مسکرا کر امید سے کہہ رہی تھی اور شیخ نے بھی اسی مسکراہٹ کے ساتھ سر کو خم دیا تھا۔
کھجور کے درخت غائب ہو گئے۔ اس نے سر اٹھایا تو دیکھا کمرے میں بیٹھی تھی اور اسٹڈی ٹیبل پہ کتاب کھلی رکھی تھی ۔اس نے صفحے پلٹائے ۔ پہلے صفحے پہ واپس آئی ۔ وہاں آج بھی ہاشم کاردار کا نام لکھا تھا ۔
کینسر رہے نہ رہے ‘ وہ بھولتا کبھی نہیں ہے۔ اور بھولنا ضروری بھی نہیں ہے۔ اس نے گہری سانس لے کر کتاب بند کر دی۔ ایک سفر تمام ہوا تھا۔


Download 2



Post a Comment

0 Comments