Noor-e-Jehan Saroor-e-Jaan, Saadat Hassan Manto, Fictions, نورجہاں سرور جاں, سعادت حسن منٹو, افسانے,

 Noor-e-Jehan Saroor-e-Jaan, Saadat Hassan Manto, Fictions, نورجہاں سرور جاں, سعادت حسن منٹو, افسانے,


میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ اس زمانے میں وہ بے بی تھی۔ حالانکہ پردے پروہ ہرگز ہرگز اس قسم کی چیز معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس کے جسم میں وہ تمام خطوط، وہ تمام قوسیں موجود تھیں جو ایک جوان لڑکی کے جسم میں ہو سکتی ہیں اور جن کی وہ بوقت ضرورت نمائش کرسکتی ہے۔ 

’نور جہاں‘ ان دنوں فلم بین لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی۔ لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔ سہگل کے بعد، میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا! میں نے سوچا، اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سرپر کھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح، جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسہ پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔ 

نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا اور وہ معصومیت نہیں رہی، جو کہ اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی۔ لیکن پھر بھی نور جہاں، نورجہاں ہے۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج کل ہر جگہ چل رہا ہے۔ اگر کبھی نور جہاں کی آوازفضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔ 

نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے جتنا کہ کوئی استاد۔ وہ ٹھمری گاتی ہے، خیال گاتی ہے، دھرپدگاتی ہے، اور ایسا گاتی ہے کہ گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقیناً حاصل کی تھی کہ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی، جہاں کا ماحول ہی ایسا تھا۔ لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔ موسیقی کے علم سے کسی کا سینہ معمور ہو، مگر گلے میں رس نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خالی خولی علم سننے والوں پر کیا اثر کرسکے گا۔ نور جہاں کے پاس علم بھی تھا اور وہ خدادا چیز بھی کہ جسے گلا کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے۔ 

میں یہاں آپ کے لیے ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ وہ لوگ جن پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے، وہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میرا مطلب ابھی آپ پرواضح ہو جائے گا۔ چاہیے تو یہ کہ جو چیز خدا نے عطا کی ہو، اس کی حفاظت کی جائے، تاکہ وہ مسخ نہ ہو۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔ بلکہ غیر شعوری یا شعوری طور پرپوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ 

شراب گلے کے لئے سخت غیر مفید ہےلیکن سہگل مرحوم ساری عمر بلا نوشی کرتے رہے۔ کھٹی اور تیل کی چیزیں گلے کے لئے تباہ کن ہیں، یہ کون نہیں جانتا؟ مگر نور جہاں پاؤ پاؤ بھر تیل کا اچار کھا جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی، پھر مائیکرو فون کے پاس جائے گی۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ’’اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔‘‘ 

یوں آواز کیونکر نکھرتی ہے، گلا کیسے صاف ہوتا ہے، اس کے متعلق نور جہاں ہی بہتر جانتی ہے۔ یوں میں نے اشوک کمار کو بھی برف استعمال کرتے دیکھا ہے کہ جب اسے گانے کی صد ا بندی کرانا ہوتی ہے وہ سارا وقت برف کے ٹکڑے چباتا رہتا ہے۔ جب تک ریکارڈ زندہ ہیں، سہگل مرحوم کی آواز کبھی نہیں مرسکتی۔ اسی طرح نور جہاں کی آواز بھی ایک عرصے تک زندہ رہے گی اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔ 

نور جہاں کو میں نے صرف پردے پر دیکھا تھا۔ میں اس کی شکل و صورت اور اداکاری کا نہیں، اس کی آواز کا شیدائی تھا۔ وہ کم عمر تھی۔ اس لیے مجھے حیرت تھی کہ وہ کیونکر اتنے دل فریب طریقے سے گا سکتی ہے۔ ان دنوں دو آدمیوں کا دور دورہ تھا۔ مرحوم سہگل کا اور نور جہاں کا۔ یوں تو ان دنوں خورشید چھائی ہوئی تھی، شمشاد کے بھی چرچے تھے مگر نور جہاں کی آواز میں سب کی آواز دب گئی۔ 

ثریا بعد کی پیداوار ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ سہگل اور ثریا اکٹھے فلم میں پیش ہوئے لیکن نور جہاں اور وہ دونوں الگ الگ رہے۔ معلوم نہیں، پروڈیوسروں کے دماغ میں ان دونوں کو یکجا کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا یا کسی اور وجہ سے پروڈیوسر ان کو ایک فلم میں کاسٹ نہ کرسکے۔ بہر حال مجھے اس کا افسوس ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اگر وہ دونوں آمنے سامنے ہوتے تو موسیقی کی دنیا میں نہایت خوشگوار انقلاب برپا ہوتا۔ 

نور جہاں سے میری پہلی ملاقات کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی۔۔۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ میں کئی برس تک بمبئی کی فلمی دنیا میں گزار کر چند وجوہ کی بنا پر دل برداشتہ ہوکر دہلی چلا گیا۔ وہاں پر میں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی۔ مگر یہاں سے بھی دل اچاٹ ہوگیا۔ بمبئی سے’’مصور‘‘ کے ایڈیٹر نذیرلدھیانوی کے متعدد خطوط آئے کہ تم واپس چلے آؤ۔ ’خاندان‘کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی یہاں آئے ہوئے ہیں اور میرے ہی پاس ٹھہرے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ تم ان کے لئے ایک کہانی لکھو۔ 

میں دہلی چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب کرپس مشن فیل ہو چکا تھا۔ میں غالباً۷ اگست۱۹۴۷ء کو بمبئی پہنچا۔ شوکت سے میری پہلی ملاقات۱۷ اڈلفی چیمبرز کلیئر روڈ پر ہوئی۔ جو دفتر بھی تھا اور رہائشی مکان بھی۔ بڑا بانکا چھیلا نوجوان تھا۔ گورا رنگ، گالوں پر سرخی، مہین مہین جون گلبرٹ اسٹائل کی مونچھیں، گھنگھریالے بال، لمبا قد، بہت خوش پوش، بے داغ پتلون، شکنوں سے بے نیاز کوٹ ٹائی کی گرہ نہایت عمدہ، چال میں لٹک، ہم پہلی ملاقات میں ہی خوب گھل مل گئے۔ 

میں نے اس کوبہت مخلص انسان پایا۔ میں دہلی سے اپنے ساتھ اپنے پسندیدہ سگریٹ یعنی کریون اے کا کافی اسٹاک لے کر آیا تھا۔ جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس لیے بمبئی میں یہ سگریٹ قریب قریب نایاب تھے۔ شوکت نے میرے پاس بیس پچیس ڈبے اور پچاس کے قریب ڈبیاں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔ 

ہم دونوں کا قیام وہیں17 اڈلفی چیمبرز میں تھا۔ دو کمرے تھےجہازی سائز کے۔ ایک میں دفتر تھا، دوسرے میں رہائشی معاملہ۔ مگر رات کو ہم دفتر میں سوتے تھے۔ مرزا مشرف وغیرہ آجاتے تھے، وہ ہماری چارپائیاں بچھا دیتے تھے۔ جب تک شوکت وہاں رہا، بڑے ہنگامے رہے، کریون اے کے سگریٹ اور ناسک کی ہرن مارکہ وسکی جو بڑی واہیات تھی۔ لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ شوکت’’خاندان‘‘ کے بعد گو بہت بڑا ڈائریکٹر بن گیا تھا۔ مگر لاہور سے بمبئی پہنچنے اور وہاں کچھ دیر رہنے کے دوران میں وہ سب کچھ خرچ ہو چکا تھا جو اس نے لاہور میں فلم کی ہنگامی اور اخراجات سے پر زندگی گزارنے کے بعد پس انداز کیا تھا۔ اور میرے پاس تو صرف چند سوتھے جو کہ ہرن مارکہ وسکی میں غرق ہوگئے۔ 

بہر حال کسی نہ کسی حیلے گزر ہوتا رہا۔ وہ وقت بہت نازک تھا۔ میں سات اگست کو وہاں پہنچا اور ۹ اگست کی صبح کو جب میں نے کہیں ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی تو لائن’’ڈیڈ‘‘ یعنی مردہ تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کانگریسی لیڈروں کی گرفتاریاں چونکہ عمل میں آرہی تھیں، اس لیے احتیاطاً ٹیلی فون کا سارا سلسلہ منقطع کردیا گیا تھا۔ 

گاندھی جی، جواہر لعل نہرہ اور ابو الکلام آزاد وغیرہ سب گرفتار کر لیے گیے، اور کسی نامعلوم جگہ منتقل کردیے گئے۔ شہر کی فضا بالکل ایسی تھی جیسے بھری بندوق۔ باہر نکلنے کا تو سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ کئی دن تک ہم ہرن مارکہ شراب پی کر اپنا وقت کاٹتے رہے۔ اس دوران فلم انڈسٹری میں بھی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ حالات چونکہ غیر یقینی تھے اس لیے کسی نئے فلم کی تیاری کون کرتا۔ چنانچہ جن لوگوں سے شوکت کی بات چیت ہورہی تھی، ایک غیر معینہ عرصے کے لئے کھٹائی میں پڑ گئی اور ہم نذیر لدھیانوی کے ہاں پکے ہوئے بدمزے کھانے کھا کرلمبی تان کر سوتے رہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے تھے اور ہم کہانیوں کے متعلق سوچنا شروع کردیتے تھے۔ 

اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ نور جہاں بھی بمبئی میں ہے لیکن ٹھہریئے! میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا۔ میرا حافظہ جواب دے گیا تھا۔ اصل میں مجھے یہ آٹھ اگست ہی کو معلوم ہوگیا تھا جبکہ میری ملاقات ابھی شوکت سے نہیں ہوئی تھی۔ 

مجھے ماہم جا کر اپنے چند رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ایک ریڈیو آرٹسٹ ثمینہ کا پتہ لینا تھا۔ (بعد میں کرشن چندر سے جس کے مراسم رہے۔) اس لڑکی کو میں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بمبئی بھیجا تھا کیونکہ اس کو فلم میں کام کرنے کا شوق تھا۔ میں نے اسے پرتھوی راج اور برج موہن کے نام تعارفی خط لکھ کر دے دیے تھے اور اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آیا وہ فلمی دنیا میں داخل ہو چکی ہے یا نہیں۔۔۔! لڑکی ذہین تھی، کردار اس کا بہت اچھا تھا، مکالمے بہت روانی کے ساتھ ادا کرتی تھی، شکل و صورت کی بھی خاصی تھی۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوگئی ہوگی۔ 

مجھے پتہ چلا کہ وہ شیوا جی پارک میں کہیں رہتی ہے۔ مگر یہ اتنی بڑی جگہ ہے کہ ثمینہ خاتون کا پتہ لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ میں نظامی صاحب کے ہاں روانہ ہوگیا جو قریب ہی کیڈل روڈ پر رہتے تھے۔ مجھے ان کا ایڈریس معلوم تھا کہ وہ اکثر مجھے خط لکھتے رہتے تھے۔ یہ وہی نظامی ہیں جنہوں نے ممتاز شانتی کو تربیت دی۔ جن کے پاس ولی صاحب برسوں پڑے رہے اور آخر میں ممتاز شانتی کو نظامی صاحب کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت ہی لے اڑے۔ یہ وہی نظامی صاحب ہیں جن کی بیوی گیتا نظامی کے نام سے فلمی دنیا میں مشہور ہوئی اور جس نے نظامی صاحب کو لات مار کر پے در پے کئی شادیاں کیں۔ عدالتوں میں جس کے کئی مقدمے چلے اور جو اب ایک نئی خوبصورت لڑکی کے ساتھ ڈانس پارٹی بنا کرشہربہ شہر پاکستان کا پرچار کر رہے ہیں۔ 

نظامی صاحب سے میری ملاقاتیں صرف خطوط تک ہی محدود تھیں اور وہ بھی بڑے رسمی تھے۔ میں نے ان کو پہلی مرتبہ ان کے فلیٹ پر دیکھا۔ میں اگر اس ملاقات کو بیان کروں تو میرا خیال ہے، دس پندرہ صفحے اس کی نذر ہو جائیں گے، اس لیے میں اختصار سے کام لوں گا۔ نظامی صاحب جو کہ دھوتی اور بنیان پہنے تھے، مجھے بڑے تپاک سے ملے۔ انہوں نے میرے آنے کا مقصد پوچھا جومیں نے عرض کردیا۔ آپ نے کہا، ’’ثمینہ خاتون ابھی آپ کے قدموں میں حاضر ہو جائےگی۔‘‘ 

ان کا ایک مریل قسم کا ہندو منیجر تھا۔ اس کو آپ نے حکم دیا کہ منٹو صاحب کے لئے فوراً ثمینہ خاتون کو حاضر کرو۔ یہ حکم دینے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ وہ میرے لیے ہر قسم کی خدمت کےلیے حاضر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً زبانی طور پر میرے لیے ایک عمدہ فلیٹ، بہترین فرنیچر اور ایک عدد کار کا بندوبست کردیا۔ 

ظاہر ہے کہ میں بہت خوش ہوا۔ چنانچہ میں نے مناسب اور موزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا جس کی ان کو بالکل ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ وہ میرے افسانوں کے گرویدہ تھے۔ قارئین سے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نظامی صاحب زبانی جمع خرچ کے بادشاہ ہیں۔ نظامی کچھ بھی ہو، لوگ اسے بھڑوا کہیں، کنجر کہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو۔ مجھے اس کا حدود اربعہ معلوم نہیں۔ لیکن میرا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ وہ ایک مہم جو انسان ہے۔ وہ اپنے فن میں پوری پوری مہارت رکھتا ہے۔ میں نے اس روز، یعنی پہلی ملاقات کے دن ہی دیکھا ممتاز شانتی پر اس کا اتنا رعب داب تھا کہ کسی باپ کا بھی نہیں ہوسکتااور ولی صاحب اس کے سامنے یوں جھکتے تھے کہ جیسے کوئی سائیس! 

وہ اس گھر کا بادشاہ تھا جس کو سب خراج ادا کرتے تھے۔ اس کا کام صرف پروڈیوسروں کو کھانے اور شراب کی دعوتیں دینا، اور بلیک مارکیٹ سے پٹرول خریدنا تھا اور ممتاز شانتی کو کامیاب ہونے کے گر بتانا تھا کہ دیکھو! اگر تم یوں مسکراؤ گی تو فلاں پروڈیوسر سے تمہیں کنٹریکٹ لینے کا ذمہ میں لیتا ہوں۔ اگر تم فلاں سیٹھ سے یوں ہاتھ ملاؤ گی تو اس کا مطلب ہے کہ دس ہزار روپے اسی رات ہماری جیب میں ہوں گے۔ میں وہاں بیٹھا تھا اور حیران ہورہا تھا کہ میں کس دنیا میں آنکلا ہوں۔ وہاں ہر چیز مصنوعی تھی۔ ولی صاحب، نظامی صاحب کے حکم پر ان کا سلیپر اٹھا کے لائے اور جھک کر ان کے قدموں میں رکھ دیا۔ اس میں بناوٹ تھی۔۔۔ خدا کی قسم! یکسر بناوٹ تھی۔ 

اور ممتاز شانتی دوسرے کمرے میں معمولی لباس میں۔۔۔ نہایت معمولی لباس میں، کھڑکی کے پردوں کے لئے کیلیں ٹھونک رہی تھی، اور نظامی کہہ رہا تھا، ’’منٹو صاحب! یہ بچی نہایت سادہ ہے۔ فلم لائن میں رہ کر بھی اسے آس پاس کی دنیا کا کچھ علم نہیں۔ مردوں کی طرف تو یہ نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی اور یہ سب میری تربیت کا نتیجہ ہے۔‘‘ 

میرا دل کہتا تھا کہ یہ سب فراڈ ہے، یہ سب جعل ہے، لیکن مجھے نظامی صاحب کی ا ن کے منہ کے سامنے تعریف کرنا پڑی۔ 

لیکن بات نور جہاں کی ہورہی تھی۔ 

ممتاز شانتی کو سیدھے راستے پرلگانے اور اس کو صالح تربیت دینے کے متعلق باتیں ہورہی تھیں تو نظامی صاحب نے نور جہاں کا ذکرکیا اور مجھے بتایا کہ ان دنوں وہ بھی ان کے زیر سایہ ہے اور ممتاز کی طرح تربیت حاصل کررہی ہے۔ آپ نے کہا: 

’’منٹو صاحب! اگر یہ لڑکی زیادہ دیر لاہور میں رہتی تو اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا، میں نے اسے یہاں اپنے پاس بلا لیا ہے اور سمجھایا ہے کہ دیکھو بیٹا! صرف فلم اسٹاربننے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی سہارا بھی ہونا چاہئے۔ اول تو شروع میں عشق لڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ادھر ادھر دونوں طرف سے خوب کماؤ۔ جب بینک میں تمہارا کافی روپیہ جمع ہو جائے تو کسی ایسے شریف آدمی سے شادی کر لو جو ساری عمر تمہارا غلام بن کے رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے منٹو صاحب! آپ تو بڑے داناہیں۔‘‘ 

میری ساری دانائی تو نظامی صاحب کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی نیچے فٹ پاتھ پربھاگ گئی تھی۔ میں کیا جواب دیتا؟ بس کہہ دیا کہ آپ جو کررہے ہیں وہ مصلحت کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے آواز دے کر نور جہاں کو بلایا مگر اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور چند لمحات کے بعد نور جہاں کی آواز کسی کمرے سے آئی، ’’ابھی آتی ہوں، کمال صاحب کا فون آیا ہے۔‘‘ 

نظامی صاحب زیرِ لب مسکرائے۔ یہ کمال صاحب، حیدر امروہی تھے۔۔۔ ’’پکار کے شہرت یافتہ‘‘ نظامی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’میں عرض کررہا تھا کہ سہارا ہوناچاہیے تو نور جہاں کے لئے کمال امروہی سے بہتر سہارا اور کون ہو سکتا ہے۔ لیکن میں اس سے صاف صاف کہہ چکا ہوں کہ شادی وادی کا معاملہ غلط ہے، بس اپنا الوسیدھا کیے جاؤ۔ کمال کما سکتا ہے۔ اس کی آدھی کمائی اگر نور جہاں کو مل جایا کرے تو کیا ہرج ہے۔ اصل میں منٹو صاحب ان ایکٹرسوں کو روپیہ کمانے کے گر آنے چاہئیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ گرو جو موجود ہیں۔‘‘ نظامی خوش ہوگیا اور اس نے مجھے فوراً ایک فسٹ کلاس لیمن سکواش پلایا۔ 

بس یہاں۔۔۔ نظامی صاحب کے فلیٹ میں، جہاں نور جہاں کی سائنٹیفک طریقے پر تربیت ہورہی تھی، اس کو و ہ تمام چلتر خالص نظامی صاحب کی نگرانی میں سکھائے جارہے تھے، میری نور جہاں سے سرسری سی ملاقات ہوئی اور میرا رد عمل یہ تھا کہ یہ لڑکی اپنی جوانی کی منزلیں بڑی سرعت سے طے کررہی ہے اور جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ہنسی تجارتی رنگ اختیار کررہی ہے اور جوموٹاپے کی طرف مائل ہے، اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی۔ 

لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 

نظامی کی خواہش دراصل یہ تھی کہ جس طرح ممتاز شانتی اس کے قبضے میں ہے اور اس کا رعب داب تسلیم کرتی ہے اسی طرح وہ ایک بوڑھی نائکہ کی طرح نور جہاں کو بھی اپنی نوچی بنالے۔ 

ممتاز شانتی کی ساری آمدنی نظامی کی تحویل میں رہتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ممتاز شانتی کے مقابلے میں نور جہاں کی قدر و قیمت بہت زیادہ تھی اور نظامی کا ہوشیار دماغ اچھی طرح جانتا تھا کہ نور جہاں کا مستقبل خیرہ کن ہے۔ چنانچہ وہ اس کو اپنے جال میں پھنسانے کی تیاریاں مکمل کررہا تھا کہ۔۔۔ 

سید شوکت حسین رضوی بمبئی پہنچ گیا۔ وہ شوکت، وہ رضوی جس سے نور جہاں کا عشق پنچولی اسٹوڈیوز میں لڑ چکا تھا، مقدمہ بازی بھی ہو چکی تھی اور بچنے کی خاطر نور جہاں نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ شوکت صاحب سے اس کا کوئی ناجائز تعلق نہیں وہ تو انہیں اپنا بھائی سمجھتی ہے۔ 

نور جہاں کا یہ عدالتی بھائی اب بمبئی میں موجود تھا۔ وسیع و عریض بمبئی میں، جو فلمی دنیا کی ہالی ووڈ تھی۔ 

میں نے شوکت سے بات کی کہ میں نور جہاں سے ملا ہوں۔ اس وقت مجھے ان کے رومان کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔ میں یہ تو جانتا تھا کہ دونوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ میں نے صرف برسبیلِ تذکرہ اس کو بتایا تھا کہ نور جہاں سے میری ملاقات نظامی صاحب کے گھر میں ہوئی ہے۔ ہرن مارکہ شراب کا گلاس زور سے تپائی پر رکھ کر اس نے بڑی تندہی سے کہا، ’’لعنت بھیجو، اس پر۔‘‘ میں نے ازراہِ مذاق کہا، ’’میں ہزار بار اس کے لیے تیار ہوں، مگر بھئی! وہ تمہارے خاندان کی ہیروئن رہ چکی ہے۔‘‘ 

شوکت ذہین ہے۔ فوراً سمجھ گیا کہ میں لفظ’’خاندان‘‘ پر کھیلا ہوں اور اسے ذومعنی استعمال کیا ہے، مسکرا دیا، ’’منٹو تم بہت شریر ہو۔ لیکن بات یہ ہے کہ میں اس کے متعلق کوئی بات نہیں سننا چاہتا۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ بمبئی میں ہے۔ سالی! میرے پیچھے پیچھے آئی ہے لیکن مجھے اب اس سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘ 

میں نے جب اس کو بتایا کہ وہ کمال امروہی کو ٹیلیفون کررہی تھی اور یہ کہ نظامی ان دونوں کو قریب لانا چاہتا ہے تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بظاہر بےاعتنائی اور بے پرواہی ظاہر کررہا ہےمگر اندرونی طور پرسخت بے چین ہوگیا ہے۔ اس لیے فوراً ہی ہرن مارکہ وسکی کا ایک اور ادھا مرزا مشرف سے منگوایا اور ہم رات دیر تک پیتے رہے۔ 

اس دوران میں لمبے وقفوں کے بعد نور جہاں کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔ میں نے شوکت کی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ ابھی تک اس کی محبت میں گرفتارہے۔ بھائی والا معاملہ تومحض حکمتِ عملی تھا۔ اس کو وہ راتیں یادآرہی تھیں جب نغموں کی ننھی منی شہزادی اس کی آغوش میں ہوتی تھی۔ اور جب غالباً دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ 

میں نے ایک دن شوکت سے پوچھ ہی لیا، ’’دیکھو یار بتاؤ! بچو سچ بتاؤ۔۔۔! کیا تمہیں نور جہاں سے محبت نہیں ہے؟‘‘شوکت نے زور سے اپنے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور کسی قدر کھسیانے پن سے کہا، ’’ہے یار۔۔۔ ہے۔۔۔ مگر لعنت بھیجو اس پر۔ میں اس کو آہستہ آہستہ بھول جاؤں گا۔‘‘ 

لیکن قدرت زیر لب مسکرا رہی تھی، وہ جو فیصلہ کر چکی تھی، اٹل تھا۔ شوکت کا کنٹریکٹ سیٹھ وی۔ ایم ویاس سے ہوا جو اس سے پہلے ایک فلم کے لئے نور جہاں سے معاہدہ کر چکا تھا۔ 

اب لگے ہاتھوں سیٹھ وی۔ ایم ویاس کے متعلق بھی سن لیجئے۔ یہ ایک کائیاں آدمی ہے۔ شروع شروع میں طبلچی تھا، پھر کیمرہ قلی ہوا، آہستہ آہستہ کیمرہ مین بن گیا۔ ترقی کے اور زینے طے کیے تو ڈائرکشن کا موقع مل گیا۔ یہاں سے چھلانگ لگائی تو پروڈیوسر، اب وہ ڈائرکٹر اور پروڈیوسر ہے اور لاکھوں میں کھیل رہا ہے۔ بہت ہی منحنی قسم کا انسان ہے مجھ سے بھی کہیں پتلا۔ اتنا پتلا کہ اسے قمیص کے نیچے ایک موٹا اونی بنیان پہننا پڑتا ہے کہ اس کی پسلیاں لوگوں کو نظر نہ آئیں۔ مگر بلا کا پھرتیلا ہے اور بڑا محنتی۔ اس کے مقابلے میں پہلوان تھک جائیں گے مگر وہ ڈٹا رہےگا جیسے مشقت اس پر اثر انداز ہو ہی نہیں سکتی۔ 

اس کی ایک خوبی اور ہے کہ وہ اپنے ذاتی سرمائے سے فلم نہیں بناتا۔ ایک فلم تیار کرکے اور اس کو ٹھکانے لگا کر وہ اپنے دوسرے فلم کا اعلان کردیتا ہے۔ اس وقت کے جتنے اونچے ستارے ہوتے ہیں وہ اپنی کاسٹ میں جمع کرلیتا ہے۔ کہانی کا اس وقت نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ کوئی نہ کوئی’’ فائی نینسر‘‘ اس کے دام میں آجاتا ہے۔ چنانچہ اس سے روپیہ لے کر وہ’کالی‘ کا نام لے کر کام شروع کردیتا ہے۔ 

نور جہاں بمبئی آئی تو اس کو پتہ چل گیا، چنانچہ اس نے فوراً ہی نور جہاں سے کنٹریکٹ کرلیا۔ اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ’’خاندان‘‘ اور دوسرے فلموں کی قابلِ رشک کامیابی کے بعد اس کا نام ہی کسی’’فائی نینسر‘‘ کو پھانسنے کے لئے کافی ہے۔ اور جب اس کو معلوم ہوا کہ خاندان کا ڈائریکٹر بھی بمبئی میں موجود ہے تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے فوراً اپنے کارندے دوڑائے۔ شوکت حسین رضوی سے کئی ملاقاتیں کیں اور اس کے ساتھ بھی ایک پکچر کا معاہدہ کرلیا۔ 

Download

Post a Comment

0 Comments