Mushahidat-e-Haram by Amin Ahsan Islahi - مشاہدات حرم از امین احسن اصلاحی
Mushahidat-e-Haram by Amin Ahsan Islahi - مشاہدات حرم از امین احسن اصلاحی
۱۹۵۸ ء میں مولانا امین احسن اصلاحی نے حج ادا
کرنے کے لیے سفر کیا ۔ تقریباً تین ماہ کے اس سفر میں جو کچھ آپ کے مشاہدے میں آیا
،آپ نے اسے ''مشاہداتِ حرم'' کے نام سے صفحہء قرطاس پر رقم کر دیا ۔ محض زیبِ
داستان کے لیے سفر نامہ لکھنا مولانا کے مزاج کا حصہ نہ تھا ۔ جیسا کہ انھوں نے
اپنی تمہیدی گفتگو میں لکھا ہے کہ ان کا سفر نامہ لکھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا
،لیکن دورانِ حج میں انھوں نے حجاج کے ذہنوں میں حج سے متعلق الجھے ہوئے سوالات کی
چبھن محسوس کی ، جنھیں مولانا کے نزدیک سلجھانا ضروری تھا ۔ دوسری طرف حکومتوں کی
دفتری پابندیوں کی و جہ سے لوگ پریشان تھے جن کی اصلاح کی طرف ان کی توجہ مبذول
کرانا ضروری تھا ۔ اور تیسرے حجازِ مقدس میں مادی ترقی کے ساتھ تہذیبِ مغرب کے
سرعت سے پھیلتے ہوئے اثرات نے انھیں بے چین کر دیا ۔ ان وجوہ کی بنا پر مولانا
اصلاحی نے سفرنامہ لکھنا ضروری سمجھا ۔
مولانا اصلاحی کا یہ سفر ایک طالبِ صادق کا سفر ہے جو طالب و مطلوب
کے رشتے کو تلاش کر کے اس سے پیمانِ وفا باندھنے کی فکر میں سرگرداں نظر آتا ہے ۔
یہی و جہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کو جیسے محسوس کرتا ہے ویسے ہی کسی کمی یا اضافے
کے بغیر سپردِ قلم کر دیتا ہے ۔ اس بات کا اظہار مولانا نے اس سفر نامے کے شروع
میں ان الفاظ میں کیا ہے ۔
''میں نے اس سفر نامے میں صرف انہی واقعات
و حالات کا ذکر کیا ہے جن کا میرے دل پر کوئی نقش قائم رہ گیا تھا ۔ میں نے وہ
نقوش بے تکلف دل کے صفحے سے اٹھا کر کاغذ کے صفحات پر رکھ دیے ہیں ۔ نہ کہ کسی بات
کے یاد کرنے کے لیے حافطے پر زور ڈالا ،نہ کہیں آرایشِ بیاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اور نہ کسی ایسی بات کو چھپانے ہی کی کوشش کی ہے جو دل کے صفحے پر موجود ہو ۔'' (ص
۶ )
مولانا نے اس سفر نامے میں ایک طرف تو ایک صاحبِ نظر عالمِ دین کی
حیثیت سے اپنے مشاہدات ، تجربات اور تاثرات رقم کیے ہیں اور دوسری طرف حج کے فکر و
فلسفہ ، بیت اللہ کی عظمت ، حرمِ نبوی کی رفعت و منزلت اور حجاجِ کرام کے محاسن کے
ساتھ ساتھ ان کی لغزشوں کو بھی اپنے قلبی جذبات اور احساسات کے سانچے میں ڈھال کر
بڑی سادگی اور بے ساختگی سے بیان کیا ہے ۔اس طرح یہ سفر نامہ حصولِ معلومات کے
ساتھ تزکیہء قلوب کا ذریعہ بھی بن گیا ہے ۔
اگرچہ سفر نامے میں مقدس مقامات سے متعلق تمام تفصیلات اور عبادات
کی جزئیات سمو دی گئی ہیں ،تاہم مولانا کا اصل ارتکاز اس داخلی تجربے اور مشاہدے
پر ہے جس سے اکثر حجاج گزرتے ہیں ،لیکن وارداتِ قلبی ہر ایک کی مختلف ہوتی ہے ۔ اس
میں جہاں حج کے عظیم اجتماع کی خارجی تصویر نظر آتی ہے ،وہاں اس داخلی تعلق کی
تصویر بھی دکھائی دیتی ہے جسے حجاجِ کرام حسبِ توفیق اللہ اور رسول سے ایمانی و
جذباتی سطح پر محسوس کرتے ہیں ۔ غرض یہ کہ داخلیت اور خارجیت کے امتزاج سے تجربے
اور مشاہدے کا ایسا جہان پیدا کیا ہے جس میں سانس لیتے ہوئے آدمی روحانی کیفیت سے
سرشار ہو جاتا اورخود کو طوافِ کعبہ میں مشغول پاتا ہے ۔
جذب و ایمان کے ان دائروں کے باہر زندگی کا حقیقی رنگ بھی نظر آتا
ہے ، حرص و لالچ کے بازار ،نفسا نفسی کی کیفیت ، نفس پرستی کے مناظر ، بازارِ تمدن
کی گہما گہمی اور سب سے بڑھ کر مغربی تہذیب کے اثرات جن سے سر زمینِ حجاز کا فطری
حسن ، اس کی رعنائی اور اصلیت مسخ ہو گئی ہے اور جسے مولانا کبھی مدینہ کے نواحی
باغات میں تلاش کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی مدینہ کی پرانے گلیوں اور بازاروں میں ان
سنگ و خشت کی جستجو کرتے دکھائی دیتے ہیں ،جنھوں نے قرنِ اول کے اسلاف کی شوکت و
عظمت اور رحمت و رافت ء کے جلوے دیکھے تھے۔ مولانا نے اس سفر میں جو محسوس کیا ،
جو ان کے مشاہدے میں آیا اور جس دولتِ ایمان و یقین سے وہ فیض یاب ہوئے ، اسے
انھوں نے سب میں تقسیم کر دیا ۔
۱۷۲ صفحات پر مشتمل یہ سفر نامہ ۱۹۵۹ء
میں ماہنامہ ''المنبر'' فیصل آباد اور بعد ازاں ماہنامہ ''میثاق'' لاہور میں کئی
اقساط میں شائع ہوا ۔ مولانا کا ارادہ تھا کہ اسے کتابی شکل میں چھپوائیں لیکن ان
کی دیگر مصروفیات کی و جہ سے یہ معاملہ نظر انداز ہوتا رہا ۔ بالآخر ان کی وفات کے
بعد ان کے ایک عقیدت مند مقبول الرحیم مفتی صاحب نے اسے کتابی صورت میں مرتب کر
دیا ۔ مرتب کے مطابق :''یہ سفر نامہ مصنف کی قائم کردہ ترتیب کے مطابق کسی اضافے
کے بغیر شائع کیا گیا ہے ۔'' اضافہ تو واقعی نہیں کیا گیا ،البتہ اس میں ایک کمی
ضرور رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ ''میثاق'' میں شائع شدہ اقساط میں تو وقوفِ عرفات کا
ذکر ہے ،لیکن اس کتاب میں اس کا قطعاً ذکر نہیں ہے ، معلوم نہیں مرتب کی نظروں سے
مناسکِ حج میں سے اتنا اہم واقعہ کیسے پوشیدہ رہ گیا۔
Post a Comment
0 Comments