Akhri Gunah Ki Muhlat, Tariq Ismail Sagar, The Final Sin Respite, Novel, آخری گناہ کی مہلت, طارق اسماعیل ساگر, ناول,

 Akhri Gunah Ki Muhlat, Tariq Ismail Sagar, The Final Sin Respite, Novel, آخری گناہ کی مہلت, طارق اسماعیل ساگر, ناول,






نیاز علی سے زیادہ نیاز مند اور سیدھا سادھا انسان میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھا تھا۔ عمر تو اس کی پچاس سے اوپر ہی ہو گی۔ مگر صحت ایسی کہ جوان دکھ کر شرماتے تھے۔ اسے گاؤں میں آئے پانچ چھ سال ہی گذرے تھے لیکن اپنے اخلاق اور خدا ترس طبیعت کے سبب گاؤں کے بچے بڑے سب ہی نیاز علی کے گرویدہ تھے۔ اپنے گھر ہی کے ایک کونے میں اس نے کریانے کی دکان کھول رکھی تھی۔ ہفتے میں ایک دن وہ شہر جاتا اور دوکان کے لئے سامان لے آتا۔ اس کی ایمانداری تھی یا پھر ملنساز طبیعت کہ دیکھتے ہی دیکھتے نزدیک دور کے دیہاتوں میں اس کی دکان نے کافی شہرت پالی تھی۔ لوگ قریبی دیہاتوں سے "نیاز کی ہٹی" پر سامان لینے آیا کرتے تھے۔ نیاز نے منافع اتنا ہی ہم رکھا تھا کہ کوئی اور اتنے کم منافع پر دکان چلا ہی نہ سکتا تھا۔ شاید اس کے سبب اس کا اکیلا ہوتا رہا ہو۔ نیاز کا کوئی خاندان، گھر بار، مائ باپ، بیوی بچے کچھ بھی نہ تھا۔ اگر کسی نے کبھی جاننے کی کوشش کی تو اسے ہنس کر ٹال دیا۔ لوگ اس کے متعلق خود ہی اندازہ قائم کر لیتے۔ کوئی کہتا اس کی منگیتر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اس کی بے وفائی کا اثر نیاز نے اتنی شدت سے قبول کیا کہ دوبارہ کبھی عورت کے نزدیک نہ پھٹکا۔ کوئی اس کی بیوی کے مرجانے کی کہانی سناتا۔ حقیقت کیا تھی اس کا علم نیاز علی کو تھا یا پھر خدا کی ذات کو۔

 

آہستہ آہستہ لوگوں نے اس کی ذات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ اس مرتبہ جب وہ شہر گیا تو پانچ چھ روز کے بعد واپس لوٹا۔ گاؤں بھر میں چہ مگویاں شروع ہو گئین۔ لیکن نیاز نے اپنے گاہکوں کو بتایا کہ وہ دراصل دمڑی شاہ کے عرس پر چلا گیا تھا۔ اس نے کوئی منت مان رکھی تھی جسے پوری کرنا ضروری تھا۔ شہر سے واپس لوٹے اسے دوسرا دن تھا۔ جب لوگوں نے پہلی مرتبہ پولیس کا ایک ٹرک اور ایک چیپ اس طرف آتے دیکھی۔ اس سے پہلے گاؤں میں اول تو پولیس آتی ہی نہیں تھی۔ اگر تھانے والوں کو کو ئی شخص مطلوب ہوتا تو نمبردار کو اطلاع بھیج دی جاتی اور پولیس کے دوتین سپاہی اس کے ڈیرے پر آکر متعلقہ شخص کو تھانے لے جاتے۔


Read / Download

Post a Comment

0 Comments