Aur Chinar Jaltey Rahay, Novel, A. Hameed, اور چنار جلتے رہے, اے حمید, ناول,

 Aur Chinar Jaltey Rahay, Novel, A. Hameed, اور چنار جلتے رہے, اے حمید, ناول,


بادل گہرے سرمئی بادل! پہاڑی ڈھلانوں پر پھیلے چیڑھ کے درختوں کو اپنی دھند میں لپیٹتے ہوئے ٹھنڈے بادل۔ میری بس کوہ مری کو بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ میں کوہ مری سے دن ہوتے چلا تھا۔ راستے میں ایک جگہ بس خراب ہوگئی۔ کافی دیر وہاں اتنظار کرنا پڑا۔ میری منزل کوہالہ تھی۔ کوہالہ پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی۔ دریائے جہلم  پہاڑوں کی آغوش میں بڑی تیز رفتاری سے  بہہ رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے آسمان ابر آلود ہو گیا۔ اکتوبر کی یہ پہاڑی شام بڑی سرد تھی۔ بس نے ایک پہاڑی کا موڑ کاٹا تو کچھ فاصلے پر مجھے کوہالہ کی تاریخی پل نظر پڑا۔ میں اسی پل کو دیکھنے کوہالہ جارہا تھا۔ یہ وہ پل تھا جس پر ستمبر 65 کی جنگ میں دشمن کے بمبار جہازوں نے اندھا دھند بم برسائے مگر ایک بھی بم پل پر نہ گر سکا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے آسمانوں سے فرشتوں کو اترتے دیکھا تھا۔

 

یہ سبز پوش کوہالہ پل پر گرائے جانے والے بموں کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ کر دور دریا میں پھینک دیتے تھے۔ آج کی خلائی سائنس کے دور میں اس قسم کی افسانوی باتوں پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔ مگر بعض لوگوں نے اخباروں میں بیان دیے کے انہوں نے اپنی آنکھوں سے آسمان سے سبز پوش فرشتوں کو اترتے اور دشمن کے بمبار طیاروں سے گرتے بموں کو دبوچتے اور دریا میں پھینکتے دیکھا ہے۔ ایک عرصہ سے میرے دل میں یہ خواہش مچل رہی تھی کہ خود کوہالہ چل کر ان لوگوں سے انٹرویو کیا جائے اور اس افسانے کی حقیقت معلوم کی جائے۔ جنگ ستمبر کے بعد میں ایک طویل مدت کے لئے باہر چلا گیا۔ مگر سبز پوشوں کا افسانوی کردار مجھ سے الگ نہ ہو سکا۔ اب واپس آیا تو وقت نکال کراس تحقیقی سفر پر روانہ ہوا۔ شام کی پہاڑی ابر آلود سرمئی فضا میں بس کوہالہ کے قریب پہنچ گئی تھی۔ دریا ہمارے بائیں جانب تھا۔ کوہالہ کا پل اب میری نظروں کے سامنے تھا۔ بس چائے کی دکانوں کے پاس جا کر رک گئی۔۔۔۔



Read Novel

Post a Comment

0 Comments