Aik Zakham or Sahi, Ashfaq Ahmad, Short Stories, ایک زخم اور سہی, اشفاق احمد, مختصر کہانی,

Aik Zakham or Sahi, Ashfaq Ahmad, Short Stories, ایک زخم اور سہی, اشفاق احمد, مختصر کہانی,



اپنا دکھ


صبح ہوتے ہی بیٹے نے ملازمہ کے ہاتھوں ایک چٹھی دیکر اپنی والدہ کے پاس بھیجا۔۔۔چھٹی میں لکھا تھا ۔ ’’امی جان ! کل آپ ہمارے گھر آئیں اور ہمارے بیٹے عاصم کو لیکر چلی گئیں۔ اگر ہم موجود ہوتے تو شاید اُسے آپ کے ہمراہ جانے نہ دیتے کیوں کہ وہ ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے، اس کے بغیر ایک دن گزارنا ہمارے لئے محال ہے۔ وہ نہیں تھا تو کل شام کا کھانا بھی کھایا نہ جا سکا۔ رات میں اس کی امی اور میں سو نہ سکے۔ ملازمہ کو بھیج رہا ہوں ہمارا بیٹا لوٹا دو۔‘‘


ماں نے اپنے پوتے کو لوٹا دیا۔ مگر ساتھ میں ایک چھٹی بھی دی۔ جس میں لکھا تھا ۔


’’تمھیں اپنے بیٹے سے دوری کا کس قدر احساس ہوا۔ اب تمہیں معلوم ہوا ہوگا کہ بیٹے کی جدائی کا غم کیا ہوتا ہے۔ اپنی شادی ہو جانے کے بعد تم نے ہمارا چہرہ بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔ تمہارا ایک دن میں یہ حال ہوا ہے۔۔۔۔


’’ذرا سوچو ! تم مجھ سے دس سال سے جدا ہو، میرا کیا حال ہو رہا ہوگا؟ ‘‘۔!!


اپنا دکھ

لوگوں کی بھیڑ اُس جگہ جمع تھی جہاں ایک مزدور دو منزلہ عمارت سے گر کر مر چکا تھا زمین پر دو پوسٹ کارڈ بھی اسکی جیب سے گر پڑے تھے ایک خط اسکی بیوی نے لکھا تھا۔’’ کل رات میں نے ایک بھیانک خواب دیکھا ہے آپ کام کرتے کرتے بہت اونچائی سے گر کر مالک حقیقی سے جا ملے ہیں خدا نہ کرے ایسا ہو لیکن جب سے خواب دیکھا ہے میں بہت پریشان ہوں آپ فوراً چلے آؤ۔ ‘‘


دوسرا خط مزدور نے اپنی بیوی کے خط کے جواب میں لکھا تھا جسے وہ پوسٹ نہیں کر پایا تھا۔ خط میں لکھا تھا ۔


’’ میں یہاں خیریت سے ہوں تم پریشان کیوں ہوتی ہو۔


 یاد رکھو خواب کبھی سچ نہیں ہوتے ۔.!!‘‘


اپنا دکھ

اس نے اپنے خط میں لکھا تھا ۔۔۔ ’’ میں نے اجنبی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اب مجھے ساری خوشیاں مل گئی ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔ اب تم میرے بارے میں سوچا نہ کرو۔ خدا کرے تمہاری زندگی بھی تمہیں خوشیاں دیں‘‘۔۔۔۔ اس کا خط میں مشکل سے پڑھ پاتا ہوں۔ کیونکہ سیاہی جگہ جگہ سے پھیلی ہوئی ہے۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک ہلکی سی کرن نمودار ہوتی ہے اور پھر اس کے خیال کے دو موٹے موٹے آنسو میری پلکوں پر چمکتے ہیں اور خط پر بنے ہوئے باقی حرفوں کو بھی سیاہی بنا دیتے ہیں۔


شاید یہ لکھنے کے لئے کہ ’’ میں بھی بہت خوش ہوں، مجھے بھی ساری خوشیاں مل گئی ہیں۔


پلیز تم میرے بارے میں سوچا نہ کرو۔.!!‘‘


اپنا دکھ

دونوں بھائیوں نے جب ایک دوسرے کی بغل میں مکانات بنائے تو ایک نے تین منزلہ عمارت کھڑی کردی اور دوسرا بھائی تین کمروں پر مشتمل سادہ سا مکان بڑی مشکلوں سے بنا سکا۔


یوں تو دونوں بھائی ایک ہی محکمہ میں کلرک کے عہدے پر فائز تھے۔۔ فرق صرف ٹیبل کا تھا۔


اپنا دکھ

وہ جس راستے پر چل رہا تھا خود نہیں جانتا تھا کہ وہ صراط مستقیم ہے یا پھر گمراہی کا راستہ ۔ اسے راہ میں ایک شخص ملا بھی تھا اس نے یہ کہہ کر اسے اپنے ساتھ لیا تھا کہ تم راستہ بھول گئے ہو۔ آؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا دوں۔


بے چارہ نابینا مسافر کر تا بھی کیا وہ تو اپنے راستے کے نشانات خود نہیں دیکھ سکتا تھا چپ چاپ اس کے پیچھے ہو لیا۔ لیکن راستہ چلتے چلتے جب منزل قریب آ گئی تو پتہ چلا کہ وہ جس راستہ سے چل کر آیا ہے وہ تو گمراہی کا راستہ تھا اور راہ میں جس شخص نے اس کی راہ نمائی کی تھی وہ خضر نہیں بلکہ شیطان تھا وہ حواس کھو بیٹھا۔ حیف ۔ ۔ ! دنیا تو دنیا آخرت بھی تباہ ہو گئی۔


اب وہ پچھتا رہا تھا اے کاش کہ وہ جاہل نہ ہوتا علم کی آنکھیں اس کے پاس ہوتیں تو وہ ان آنکھوں کی روشنی میں اپنی کامیاب زندگی اور آخرت کے لئے سفر کا آغاز صراط مستقیم سے کرتا۔ صحیح اور غلط سے واقف ہوتا سفر میں وہ نہ راستہ بھولتا اور نہ ہی کوئی بہکا سکتا۔۔۔ لیکن اب پچھتا نے سے کیا حاصل ؟ بہت دیر ہو چکی تھی زندگی کا سفر ختم ہو چکا تھا۔ اب تو جہنم اس کا انتظار کر رہی تھی!!


اپنا دکھ

اخبار فروش نے جب تازہ اخبار دروازے کی دہلیز پر ڈالا تو میرا بیٹا اور میرے ضعیف والد دونوں دوڑ پڑے۔ مجھے یاد آیا. آج بد ھ ہے اخبار میں بچوں کا خصوصی صفحہ ’’بچپن‘‘ شائع ہوتا ہے۔


بیٹے نے جلدی سے دوڑ کر اخبار جھپٹ لیا اور بچوں کا صفحہ نکالنے لگا۔ ضعیف والد نے بھی اس صفحہ کو چھیننے کی کوشش کی۔


دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کا صفحہ پھٹ گیا ۔


اور پھر وہ دونوں لڑ پڑے !!


اپنا دکھ

’’فوزیہ تم آج بھی مجھے پریشان دکھائی دے رہی ہو۔ کہو  کیا بات ہے ؟‘‘


’’میرے سر تاج میں ۔۔ میں آج بھی شاید خواب ہی دیکھ رہی ہوں کہ شہر کے مشہور و معروف دولت مند وکیل نے مجھ غریب اور مجبور لڑکی کو اپنایا۔‘‘


’’نہیں فوزیہ .یہ خواب نہیں حقیقت ہے تم جانتی ہو بیوی کا انتقال ہو جانے کے بعد میں نے دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کیونکہ مجھے اپنے بچوں سے بے انتہا محبت ہے اور میں اپنے بچوں کو ذہنی اذیت کا شکار ہونے نہیں دینا چاہتا تھا لیکن جب والدین کی ضد بڑھتی گئی تو مجھے مجبور ہونا پڑا اور میں نے تمہیں شریک حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا۔


تم حیران ہو کہ آخر میں نے تمہیں ہی پسند کیوں کیا ہے۔ فوزیہ وجہ یہ ہے کہ میں نے پڑوس میں رہ کر تمہیں بچپن ہی سے اپنی سوتیلی ماں کے ہاتھوں پل پل دکھ جھیلتے اور اذیتیں اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے، تم ہمیشہ سلگتی اور بکھرتی رہی ہو۔


میں نے سوچا تم نے سوتیلے پن کا کرب سہا ہے تم اس درد کو محسوس کرتی ہو لہذا ان معصوم بچوں کو وہ دکھ کبھی نہیں دو گی جو تم نے جھیلے ہیں۔!! ‘‘


اپنا دکھ

جب بھی اسے کوئی نماز پڑھنے کی تلقین کرتا تو وہ یہی کہتا۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے دو۔ پھر داڑھی رکھ کر ایک مسجد کا کونا سنبھال لوں گا۔ ملازمت سے سبکدوش ہوا تو اس نے بچوں کے لئے ایک عالیشان مکان بنانے کا ارادہ کیا تقریباً ایک سال کا عرصہ اپنی مرضی کے بام و در بنانے میں گزر گیا۔


آج مکا ن کا ا فتتاح تھا۔ برقی قمقموں سے عالیشان عمارت جگمگا رہی تھی۔ اس کے قدم سجدہ شکر کے لئے مسجد کی جانب چل پڑے ۔ اس نے اب طے کر لیا تھا کہ وہ کل سے اپنا زیادہ تر وقت مسجد میں گزارے گا اور ا ﷲ تعالیٰ کی عبادت کرے گا۔


ابھی وہ مسجد کی سیٹرھیاں چڑھ ہی رہا تھا کہ اس کی حرکت قلب بند ہو گئی اور مسجد کے باہر ہی اس کی روح پرواز کر گئی !!


اپنا دکھ

گاؤں کے اس فقیر کی شادی ہو گئی جو دونوں آنکھوں سے اندھا تھا۔ لیکن افسوس کہ جس لڑکی سے اس کی شادی ہوئی اﷲ تعالیٰ نے اس کی آنکھیں بھی بچپن ہی میں چھین لی تھیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہوئے بھی بے سہارا تھے لیکن جب میں چھ سات سال بعد اپنے گاؤں واپس لوٹا تو دیکھا کہ وہ دونوں اپنے بچہ کے سہارے چل رہے تھے. جس کی آنکھیں بڑی خوبصورت تھیں!!


اپنا دکھ

بس اپنا توازن کھو چکی تھی چالیس مسافر جان بحق ہو چکے تھے بس کھائی میں گرتے ہی خدمت گار وہاں پہنچ گئے زندگی اور موت کے بیچ سانسیں گن رہے جسموں سے بچاؤ بچاؤ کی آوازیں آ رہی تھیں۔


لیکن خدمت گار انھیں بچانے کی بجائے وہ ان مردہ عورتوں کو اپنے کاندھوں پر لیے اسپتال کی جانب دوڑ رہے تھے جو زیورات سے لدی پھندی تھیں!!


اپنا دکھ

’’تم خاموش کیوں رہتی ہو۔۔۔ ؟‘‘


’’میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ اُس نے مصنوعی ہنسی ہونٹوں پر چسپاں کرنے کی کوشش کی۔


’’ نہیں تم ضرور کچھ نہ کچھ سوچتی رہتی ہو۔ اور تمہارے وہ خیالات تمہارے چہرے پر اداسی کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے تم اُسے ابھی تک نہیں بھولیں۔ آخر تم اُسے بھول کیوں نہیں جاتیں۔‘‘


یہ سن کر اسکے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔


’’کون کس کو بھولتا ہے راکیش۔۔۔؟‘‘


اُس نے رومال آنکھوں کے قریب لے جاتے ہوئے کہا۔


’’رادھا ۔۔۔ آج ۔۔۔۔ آج تم نے میرے دل کی بات کہہ دی۔۔۔!!‘‘


اپنا دکھ

میں جب بھی اُس طرف سے گزرتا جیوتش کو ہمیشہ ہی آدمیوں کے بیچ گھرا پاتا۔ وہ ہاتھوں میں کھینچی آڑی ترچھی لکیروں کو پڑھ کر لوگوں کو اُن کی قسمت کے فیصلوں سے آگاہ کرتا تھا۔


ایک دن میں بھی اس بھیڑ میں چلا گیا لیکن میری باری آنے تک بہت رات ہو چکی تھی۔ وہ ہماری جانب دیکھ کر کہنے لگا۔


’’ تم لوگوں کی ’’بھوش وانی‘‘ میں کل بتاؤں گا کل تم ضرور آنا۔ میں تمہیں یہیں ملوں گا۔‘‘


دوسرے دن جب ہم وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ دوسروں کی قسمت کی لکیروں کو پڑھنے والا خود اپنی قسمت کی لکیروں سے نا آشنا تھا۔


وہ تو آج صبح ہی اِس دنیا سے کوچ کر چکا!!


اپنا دکھ

وہ غریبوں کی بستی اندرا نگر میں پیدا ہوا تھا۔ بچپن بھی اسی بستی میں گزرا لیکن جب بڑا ہو ا تو خوش نصیبی سے سعودی عرب چلا گیا۔ دس سال بعد جب و ہ وطن لوٹ کر اپنی بستی میں پہنچا تو اسکے منہ پر سفید رومال تھا اور وہ پیشانی پر بل ڈالے اپنے ہی بچپن کے ساتھیوں سے ان کا تعارف پوچھ رہا تھا۔


اپنا دکھ

وہ اردو زبان کا مشہور و معروف محقق ادیب و شاعر تھا اس نے اپنی زندگی میں اردو زبان و ادب کی ترقی اسکی اشاعت اور مادری زبان کی اہمیت اور ضرورت پر سینکڑوں مقالے لکھے تھے۔ ایک دن اچانک اس کا انتقال ہو گیا اس کی حادثاتی موت کے دو  ماہ بعد انکے فرزندوں نے اپنے والد کی کتابوں کا اثاثہ باہر نکالا۔ کتابوں سے کئی الماریاں پُر تھیں پاس پڑوس کے لوگ کتابوں کی الماریوں کے اطراف ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور ان کے بچے اس اثاثہ کو کباڑی کی دکان پر لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اثاثہ اب انکے کسی کام کا نہ تھا کیونکہ انکی پوری تعلیم انگلش میڈیم سے ہوئی تھی۔!!!!


Download



Post a Comment

0 Comments