Parwa, Bano Qudsia, Novel, پروا, بانو قدسیہ, ناول,

 Parwa, Bano Qudsia, Novel, پروا, بانو قدسیہ, ناول,





"میں نے جان بوجھ کرتمہاری بے عزتی کی تھی۔کل۔تمہارے مزہب پر حملہ کیا تھا"

صوفیہ نے ہنس کر کہا،"مزہب پر، تو کیا ہمارے مزہب دو ہیں کہ تم حملہ کرتے"

"پھر بھی ہمارے یہاں کے لوگ تو کچھ یہی سمجھتے ہیں کہ" ۔۔۔۔۔ اختر رُک گیا۔

صوفیہ نے سر جھکا کر بڑی افسردگی سے کہا"اسی سمجھ کے پھیر نے تواتنے فاصلے قائم کر دئے ہیں۔"

"میں ان کے حصے کی بھی تم سے معافی چاہتا ہوں"

مکئ کے دانے چٹخنے کی آواز آئ۔

"اور میں ملکۂ بنگال اپنے لوگوں کی طرف سے تم سب کو معاف کرتی ہوں"

 

اگر قاری اس ناول کو پڑھ کر خود کو تحت الثری میں اترتا محسوس نہی کرتا تو میرے خیال سے یہ ناول اس شخص کے لیے لکھا ہی نہی گیا۔

 

سادہ خیالی کے لباس میں ایک کثیف کہانی!

 

جوش نے سقوطِ حیدرآباد کے بعد جب اس سرزمین پر دوبارہ قدم رکھا تو انہوں نے سرزمینِ دکن سے اپنی بےپناہ محبت ، اہلِ دکن کے ساتھ اپنی وابستگی ، والئ ریاست سے شکوہ ، اہلِ دکن سے اپنی بےاندازہ محبت اور حیدرآباد کے ذرہ ذرہ سے جذباتی وابستگی کو اپنی ایک نظم میں یوں بیان کیا ہے.

 

حیدرآباد اے فگارِ گل بداماں السلام

السلام اے قصۂ ماضی کے عنواں السلام

 

تو نے کی تھی روشنی میری اندھیری رات میں

مہر و ماہ خوابیدہ ہیں اب بھی ترے ذرات میں

 

میرے قصرِ زندگی پر اے دیارِ محترم

تو نے ہی کھولا تھا ذوقِ علم کا زریں علم

 

تو نے ہی بندے کو بخشی تھی کلید اسرار کی

تو نے ہی زلفیں سنواریں تھیں میرے افکار کی

 

ولولے ناچے تھے جو گھنگھرو پہن کر پاؤں میں

آج بھی رقصاں ہے تیری بدلیوں کی چھاؤں میں

 

آؤ سینے سے میرے لگ جاؤ یارانِ دکن

پیشتر اس کے کہ روئے جوش کو ڈھانپے کفن

 

تجھ سے محرومی کا غم صدیوں رلائے گا مگر

اپنے دیوانوں کو جینے کا ہنر دے کر گئی





Download

Post a Comment

0 Comments