Saman E Wajood, Bano Qudsia, Novel, سامان وجود, بانو قدسیہ, ناول,

 Saman E Wajood, Bano Qudsia, Novel, سامان وجود, بانو قدسیہ, ناول,


بانو قدسیہ صاحبہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ کا کام ہی آپ کی پہچان ہے۔ مشہورِ زمانہ ناول “راجہ گدھ” کی آپ مصنفہ ہیں۔ آپ اپنے مخصوص فلسفے، سوچ انداز اور دھیمے پن کی وجہ سے دیگر تمام مصنفین سے ممتاز اور نمایاں نظر آتی ہیں۔ تاہم ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آپ پاپولر فکشن پڑھنے والے قارئین میں زیادہ نہیں پڑھی جاتیں۔ عموماً لوگوں کو آپ کا انداز مشکل اور بوریت بھرا محسوس ہوتا ہے جس میں کہانی کم اور پیغام زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم ہماری نظر میں یہی بانو جی کی خوبصورتی ہے۔ کہانیاں تو بہت پڑھنے کو مل جاتی ہیں لیکن کہانی کے ساتھ پیش کیا گیا پیغام ہی وہ چیز ہے جو کہانی کو خوبصورت اور یادگار بنا دیتی ہے۔ بانو صاحبہ کی تحاریر کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ قاری کو سوچنے پہ مجبور کر دیتی ہیں۔ معاملات کے ایسے پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں جو عموماً نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ نگاہ و نظر میں گہرائی لانے اور سوچ کی سمت درست رکھنے میں آپ کی تحاریر کسی رہنما سے کم نہیں۔ بانو صاحبہ کی تحاریر کا حق یہ ہے کہ انہیں ایک نشست میں پڑھنے کی کوشش نہیں کی جائے، بلکہ آہستہ آہستہ، ٹھہر ٹھہر کے اور پوری طرح سمجھ کے پڑھا جائے اور مرکزی خیال پہ گرفت کی جائے بصورت دیگر کہانی کا حق ادا نہیں ہوتا۔

 

زیر گفتگو کتاب، سامانِ وجود، بانو قدسیہ کے افسانوں کے ایک مجموعے پہ مشتمل ہے جس میں کل تیرہ افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں کے عنوانات یوں ہیں: ابن آدم، منسراج کا بین، نیو ورلڈ آرڈر، تنگیء دل، شہر کافور، خاکستری بوڑھا، موسم سرما میں نیلی چڑیا کی موت، صدمہء آواز، شوق ہاتھی کا سواری چوہے دل کی، نفس نارسا، اسباق ثلاثہ، کج کلاہ اور شطرنج چال۔

 

مجموعے میں شامل پہلی کہانی ابن آدم کا ایک اقتباس ہے؛

روز اول کیا ہوا تھا! لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پہ مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کر سکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پہ تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دوچار ہوا۔۔۔ تو ابلیس اللہ کی رحمت سے ناامید ہوا۔۔۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے، وہ بھی جنت سے نکالے گئے لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔۔۔ یہی تو ساری بات ہے۔ شاہد! ابلیس نے دعویٰ کر رکھا ہے میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا۔ ناامید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔۔۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغوا ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، آگ پہ جلائے جائیں، صلیب پہ لٹکیں، لیکن وہ مایوس نہیں ہوں گے۔

 

ابن آدم جمیلہ کی کہانی ہے۔ وہ جمیلہ جو شاہد کی بیوی ہے۔ شاہد، ایک کامیاب کاروباری شخص جو اپنی ہر کامیابی کو اپنی محنت کا مرہون منت سمجھتا ہے، اور آج کل بزنس میں ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔ جمیلہ شاہد کی کامیابی اور ناکامی کو اللہ تعالیٰ کی دین قرار دیتی ہے جبکہ شاہد ناکامی سے مایوسی کی راہ پہ چل رہا ہے۔ جمیلہ کے ماضی میں ایک اور شخص بھی تھا جس کا نام فقیر حسین تھا۔ یہ ایک مشہور گلوکار تھا جو ایک زمانے میں بےحد غریب تھا، کہ جمیلہ کی والدہ نے اسے بےعزت کرکے اپنے گھر سے نکال دیا تھا۔ زمانے کا بدل ایسا ہوا کہ فقیر حسین اعلیٰ درجے کا گلوکار قرار پایا اور دولت اور شہرت اس کے قدموں کی خاک بن گئیں۔ فقیر حسین کے توسط سے شاہد کو دوبارہ کاروبار میں کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن جمیلہ کی والدہ فقیر حسین کی کامیابی سے غیر آگاہ ہی رہیں اور ایک دن دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ بظاہر کہانی محبت کی ایک تکون جیسی لگتی ہے۔ تاہم جمیلہ کی سوچ، اس کے کاٹ دار خیالات اور قسمت کا چکر بانو صاحبہ نے بےحد خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ جمیلہ کی یہ بات کہ اس کی والدہ کو آخری لمحے تک فقیر حسین کی کامیابی کی اطلاع نہ ملی، انہیں اپنے غلط روئے کی سزا کیوں نہ ملی، آخر اللہ ان پہ کیوں مہربان ہو گیا۔ ایسی بات ہے جو سوچ کے در وا کرتی ہے۔ اسی طرح انسان کی زندگی میں قسمت کا دخل کس طرح ہوتا ہے یہ کہانی اس خیال کو پوری طرح واضح کرتی ہے۔





Download

Post a Comment

0 Comments