Imam Abu Hanifa - Sawaneh wa Afkar, Mufti Amanat Ali Qasmi, Biography, امام ابو حنیفہ، سوانح و افکار, سیرت, مفتی امانت علی قاسمی,
Imam Abu Hanifa - Sawaneh wa Afkar, Mufti Amanat Ali Qasmi, Biography, امام ابو حنیفہ، سوانح و افکار, سیرت, مفتی امانت علی قاسمی,
امام اعظم ابوحنیفہ کو اللہ تعالی نے
بے پناہ فراست وذکاوت سے نوازا تھا، امام صاحب مشکل سے مشکل مسئلہ کواتنی آسانی سے
حل فرماتے تھے کہ بڑے بڑے علم وفن کے تاجدار بھی حیران وششدر رہ جاتے تھے، یہی وجہ
ہے کہ وقت کے جبال العلم علماء اور فقہ وحدیث کے آفتاب وماہتاب نے آپ کی ذہانت،
حاضر جوابی اور فراست وذکاوت کا اعتراف کیا ہے،اورنہ صرف آپ کے معتقدین؛ بلکہ
معاصرین اور متعصبین نے بھی اس حقیقت کا اظہار کیا ہے۔
عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ میں
نے کسی کو فہم وفرست میں ابوحنیفہ سے بڑھ کر نہیں پایا ہے،(تاریخ بغداد۱۵/۴۵۹)آپ نے یہ بھی فرمایا
کہ اگر ابوحنیفہ کی عقل کو نصف اہل زمین کی عقل سے تولیں تو ابوحنیفہ کی عقل غالب
آجائے گی (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ۱/۹۱)ہارون رشید نے جب امام صاحب کے بارے میں
سنا تو فرمایا کہ ابو حنیفہ اپنے دل کی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جو ہم اپنے
سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے ہیں (تاریخ بغداد ۱۶/ ۳۶۹)یزید بن ہارون کہتے
ہیں میں بہت سے لوگوں سے ملا؛ لیکن میں نے اما م ابوحنیفہ سے زیا دہ عقلمند کسی کو
نہیں پایا (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ۱/۴۲)امام شافعی فرماتے ہیں کہ عورتوں نے
ابو حنیفہ سے زیادہ کسی کو عقلمند پیدا نہیں کیا۔ (مناقب ابی حنیفہ للموفق۱/۱۵۵)
تاریخ کی کتابوں میں امام صاحب کی
ذہانت وذکاوت اور فہم وفراست کے بہت سے حیران کن واقعات مذکور ہیں،امام صاحب کی
فراست کے ان واقعات سے علمی وفقہی مسائل کی گرہ کشائی کے راستے معلوم ہوتے ہیں،نیزیہ
واقعات ہمیں غورو فکر کی دعوت دیتے ہیں اور فکر صحیح وفکر سلیم کی طرف رہنمائی
کرتے ہیں،ذیل میں چند واقعات نقل کیے جاتے ہیں، جن سے امام صاحب کا علمی تبحر،
جامعیت، کاملیت، قوتِ استحضار اور مجتہدانہ شان چھلکتی نظر آتی ہے ۔
امام صاحب کا حکیمانہ فیصلہ
کوفہ کے ایک شخص نے بڑے دھوم دھام سے ایک ساتھ اپنے دو بیٹوں
کی شادی کی، ولیمہ کی دعوت میں تمام اعیان واکابر موجود تھے، مسعر بن کدام، حسن بن
صالح، سفیان ثوری، امام اعظم بھی شریک دعوت تھے، لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ
اچانک صاحب خانہ بدحواس گھر سے نکلااور کہا ”غضب ہوگیا “زفاف کی رات عورتوں کی غلطی
سے بیویاں بدل گئی جس عورت نے جس کے پاس رات گزاری وہ اس کا شوہر نہیں تھا۔
سفیان ثوری نے کہا امیر معاویہ کے
زمانے میں ایسا واقعہ پیش آیا تھا، اس سے نکاح پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہے؛ البتہ
دونوں کو مہر لازم ہوگا،مسعر بن کدام،امام صاحب کی طرف متوجہ ہوئے کہ آپ کی کیا
رائے ہے، امام صاحب نے فرمایا پہلے دونوں لڑکے کو بلایا جائے تب جواب دوں گا،
دونوں شوہر کو بلایا گیا اما م صاحب نے دونوں سے الگ الگ پوچھا کہ رات تم نے جس
عورت کے ساتھ رات گزاری ہے، اگر وہی تمہارے نکاح میں رہے کیا تمہیں پسندہے ؟دونوں
نے کہا: ہاں! تب امام صاحب نے فرمایا: تم دونوں اپنی بیویوں کو جن سے تمہارا نکاح
پڑھایا گیا تھا، اسے طلاق دے دو اورہر شخص اس سے نکاح کر لے جو اس کے ساتھ ہم بستر
رہ چکی ہے۔ (عقود الجمان ص:۲۵۵)
حضرت سفیان ثوری نے جو جواب دیا تھا
مسئلہ کے لحاظ سے وہ بھی صحیح تھا،وطی بالشبہ کی وجہ سے نکاح نہیں ٹوٹتا ہے؛ مگر
امام صاحب نے جس مصلحت کو پیش نظر رکھا، وہ ان ہی کا حصہ تھا؛ اس لیے کہ وطی
بالشبہ کی وجہ سے عدت تک انتظار کرنا پڑتا جو اس وقت ایک مشکل امر تھا پھر عدت کے
زمانے ہر ایک کو یہ خیال گزرتا کہ میری بیوی دوسرے کے پاس رات گزار چکی ہے، اور اس
کے ساتھ رہنے پر غیرت گوارہ نہ کرتی اور نکاح کا اصل مقصد الفت ومحبت، اتحاد
واعتماد بڑی مشکل سے قائم ہوپاتا ۔
تکفیر میں حزم واحتیاط
امام صاحب حتی الامکان مومن کی تکفیر
سے احتراز کرتے تھے، امام صاحب کا مسلک تھا کہ اگر کسی مسلمان میں کفر کے ننانوے
وجوہات ہوں اور صرف ایک وجہ ایمان کی موجود ہوں تو اسی کو ترجیح دی جائے گی اور
ممکن حد تک مومن کے فعل کی تاویل کی جائے گی؛ چنانچہ امام صاحب کے مختلف سوانح
نگاروں نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص امام صاحب کی مجلس میں حاضر ہوااور عرض کیا
کہ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اس کے باوجود وہ جنت کی خواہش نہیں
رکھتا، جہنم سے ڈرتا نہیں، مردہ کھاتا ہے، بلا رکوع وسجدے کے نماز پڑھتا ہے،اس چیز
کی شہادت دیتا ہے، جسے اس نے دیکھا تک نہیں، حق بات کو نا پسند کرتا ہے، رحمت
خداوندی سے دور بھاگتا ہے اور یہود ونصاری کی تصدیق کرتا ہے ۔
بظاہر یہ سب وجوہاتِ کفر ہیں جو اس شخص
میں موجود ہیں،اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جس شخص نے یہ سوال کیا تھا، وہ
امام صاحب سے بغض رکھتا تھا، آپ نے پوچھا تم ان سوال کا حل جانتے ہو ؟اس نے کہا نہیں؛لیکن
یہ بہت بری چیز ہے، امام صاحب نے اپنے شاگردوں سے پوچھا،اس شخص کے بارے تم لوگوں کی
کیا رائے ہے؟ ان سب نے ایک زبان ہوکر کہا: جس شخص کی یہ صفات ہوں،وہ بد ترین انسان
ہے، اما م صاحب نے فرمایا: میرے نزدیک وہ شخص اولیاء اللہ میں سے ہے، سائل کو حیرت
ہوئی تو امام صاحب نے فرمایا: سنو! تمہارا یہ کہنا کہ جنت کی آرزو نہیں رکھتا اور
جہنم سے نہیں ڈرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ شخض جنت کے مالک کی آرزو رکھتا ہے اور
جہنم کے مالک سے ڈرتا ہے، تمہارا یہ کہنا کہ مردار کھاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ
مچھلی کھاتا ہے، تمہارہ یہ کہنا کہ بلارکوع وسجدہ کے نماز پڑھتا ہے اس کا مطلب ہے
کہ جنازہ کی نماز پڑھتا ہے، تمہارا یہ کہنا کہ حق کو ناپسند کرتا ہے، اس کا مطلب
ہے کہ وہ شخص زندگی کو پسند کرتا ہے؛ تاکہ اللہ کی خوب اطاعت کرسکے اور موت کو
ناپسند کرتا ہے؛ جبکہ موت حق ہے، تمہارا یہ کہنا کہ فتنہ کو پسند کرتا ہے، اس
کامطلب یہ ہے کہ مال اور اولاد کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: انَّمَا
أمْوَالُکُمْ وَأوْلَادُکُمْ فِتْنَة،تمہارا یہ کہنا کہ رحمت سے بھاگتا ہے اس کا
مطلب ہے کہ وہ بارش سے بھاگتا ہے اور تمہارا یہ کہنا کہ یہود ونصاری کی تصدیق کرتا
ہے تو وہ یہود کے اس قول لیست النصاری علی شیء اور نصاری کے قول لیست الیہود علی شیء
کی تصدیق کرتا ہے، جو کہ عین ایمان ہے، یہ سن کر وہ آدمی کھڑ ا ہوا اور امام صاحب
کی پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا کہ آپ نے حق فرمایا، میں اس کی گواہی دیتا ہوں
۔(عقود الجمان ص:۲۵۱)
رافضی نے توبہ کرلی اور شنیع حرکت سے
باز آگیا
کوفہ کا ایک رافضی حضرت عثمان ذوالنورین
کے خلاف بکواس کرتا تھا، کبھی انھیں کافر کہتا اور کبھی یہودی، امام صاحب کو خبر
ہوئی تو دفاع صحابہ میں تڑپ اٹھے اور جب تک اس سے ملاقات نہ کر لی بے چین رہے،
آخراس رافضی کے پاس تشریف لے گئے اور بڑے ادب، محبت اور نرمی سے کہا بھائی !میں تیری
لخت جگر (بیٹی) کے لیے فلاں صاحب کی طرف سے منگنی کا پیغام لایا ہوں، اللہ نے اس
صاحب کو حفظ قرآن کی دولت سے نوازہ ہے، اس کی تمام رات نوافل اور تلات قرآن میں
گزرتی ہے، خدا کاخوف ہمہ وقت غالب رہتا ہے، تقوی میں اس کی نظیر نہیں، رافضی نے
کہا: بہت اچھا یہ تو میری لڑ کی کے لیے نہیں؛بلکہ ہمارے پورے خاندان کے لیے سعادت
ہے، امام صاحب نے فرمایا: مگر اس میں ایک عیب ہے کہ مذہباً یہودی ہے،رافضی کا رنگ
بدل گیا اور جھلا کر بولا: کیا میں اپنی لڑکی کی شادی یہودی سے کر دوں؟تب امام
صاحب نے فرمایا بھائی!آپ تو اپنی لخت جگر کو ایک یہودی کے نکاح میں دینے کو تیار
نہیں تو حضور …نے اپنے نور دل کے دوٹکڑے (دوبیٹیاں)حضرت عثمان (جو آپ کے گمان میں یہودی
تھا)کو کس طرح دے دیا؟امام صاحب کا یہ ارشاد رافضی کی تنبیہ اورہدایت کا باعث ہوا،
وہ اپنے کیے پر نادم اورپشیمان ہوا اور خلوص دل سے توبہ کرکے ہمیشہ کے لیے ایسی
حرکتوں سے باز آگیا ۔(عقود الجمان ص:۲۷۳)
امانت کے منکر نے امانت واپس کردی
ایک صاحب کوفہ میں ایک شخص کے پاس کچھ
امانت رکھ کر حج کو گئے اور واپسی پر انھوں نے اپنی امانت واپس طلب کی تو اس شخص
نے انکار کر دیا، وہ سیدھا امام صاحب کے پاس حیران وپریشان گیا اور اپنا حال بیان
کیا، آپ نے اس شخص سے فرمایا: ابھی اس واقعہ کو کسی سے بیان مت کرنا اور اس شخص کو
اپنے پاس بلوایا اور اس سے تنہائی میں فرمایا کہ ان دنوں چند اشخاص میرے پاس اس
مشورہ کے لیے آئے ہیں کہ کون شخص قضاء کی لیاقت رکھتا ہے؟ اگر تو پسند کرتا ہے تو
میں تیرے لیے سفارش کردوں گا اس نے بظاہر کچھ انکار کیا ؛لیکن عہدہ کی ہوس سے آخر
راضی ہوگیا، امام صاحب نے اس کو رخصت کردیا اور امانت رکھانے والے کو بلا کر کہا:
تو اب جا کر اپنی امانت طلب کر لے، مل جائے گی،جب اس نے جاکر دوبارہ امانت طلب کی
تو اس نے اس خیال سے کہ میری بددیانتی کا شہرہ ہوجائے گا اور عہدئہ قضاء سے محروم
ہوجاوٴں گا، اس نے امانت واپس کر دی، بعد میں امام صاحب کے پاس عہدئہ قضاء کا طالب
ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ عہدہ تیرے مرتبہ سے کم ہے، اس سے بڑے عہدہ کے لیے میں خیال
رکھوں گا۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری ص:۴۰)
ایک عجیب وغریب تدبیر
امام طحاوی نے لیث بن سعد سے روایت کی
کہ میں امام صاحب کا ذکر سنتا تھا،پھر مجھے امام صاحب کو دیکھنے کی تمنا ہوئی
اچانک میں نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے پاس بھیڑ لگائے ہوئے ہیں، میں ادھر متوجہ
ہوا تو ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا: اے ابوحنیفہ ! میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ابو حنیفہ
ہیں، اس آدمی نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں،میرا ایک لڑکا ہے، میں اس کی شادی
کرتا ہوں اور بہت سارا مال خرچ کرتا ہوں؛ مگر وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے اور
اس طرح میرا مال برباد ہوجاتا ہے، اس کی کوئی تد بیر ہے ؟اما م صاحب نے فوراًفرمایا:
اس کو غلاموں کے بازار میں لے جاوٴ جب وہ کسی باندی کو دیکھنے لگے تو تم اس باندی
کو اپنے لیے خرید کر اس کے ساتھ نکاح کرادو، اگر وہ طلاق دے گا تو وہ تمہارے ملک میں
رہے گی اور اگر آزاد کرے گا تو اس کا عتق جائز نہ ہوگا۔ لیث بن سعد کہتے ہیں خدا کی
قسم! ان کا صحیح اور بر جستہ جواب دینا مجھے بہت پسند آیا (تذکرة النعمان، ص:۲۴۴)
Post a Comment
0 Comments