Tauba Shikan, Bano Qudsia, Novel, توبہ شکن, ناول, بانو قدسیہ

 Tauba Shikan, Bano Qudsia, Novel, توبہ شکن, ناول, بانو قدسیہ




توبہ شکن

بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔

 

’’مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے، ایسی ملتی ہے کہ گویا کوکا کولا کی بوتل میں ریت ملا دی ہو کسی نے۔‘‘

 

بی بی کی آنکھیں سرخ ساٹن کی طرح چمک رہی تھیں اور سانسوں میں دمے کے اکھڑے پن کی سی کیفیت تھی۔ پاس ہی پپو بیٹھا کھانس رہا تھا۔ کالی کھانسی نا مراد کا حملہ جب بھی ہوتا بیچارے کا منہ کھانس کھانس کر بینگن سا ہو جاتا۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اینٹھ سے جاتے۔ امی سامنے چپ چاپ کھڑکی میں بیٹھی ان دنوں کو یاد کر رہی تھیں جب وہ ایک ڈی سی کی بیوی تھیں اور ضلع کے تمام افسروں کی بیویاں ان کی خوشامد کرتی تھیں۔ وہ بڑی بڑی تقریبوں میں مہمان خصوصی ہوا کرتیں اور لوگ ان سے درخت لگواتے، ربن کٹواتے،انعامات تقسیم کرواتے۔

 

پروفیسر صاحب ہر تیسرے منٹ مدھم سی آواز میں پوچھتے ’’لیکن.... آخر بات کیا ہے بی بی.... ہوا کیا ہے....

 

وہ پروفیسر صاحب کو کیا بتاتی کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے، صرف ان پرغلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کا غلاف، مشین کا غلاف، تکیے کا غلاف۔ درخت کو ہمیشہ جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے! اگر اسے کرسمس ٹری کی طرح یونہی داب داب کر مٹی میں کھڑا کر دیں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالآخر تو گرے گا ہی۔

 

وہ اپنے پروفیسر میاں کو کیا بتاتی کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچی تھی اور جس وقت وہ ربڑ کی ہوائی چپلوں کا بھاؤ چار آنے کم کروا رہی تھی، تو کیا ہوا تھا؟

 

اس کے بوائی پھٹے پاؤں ٹوٹی چپلوں میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں میں برتن مانجھ مانجھ کر کیچ جمی ہوئی تھی۔ سانس میں پیاز کے باسی لچھوں کی بو تھی۔ قمیض کے بٹن ٹوٹے ہوئے اور دوپٹے کی لیس ادھڑی ہوئی تھی۔ اس ماندے حال میں جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑ ی تھی تو کیا ہوا تھا؟

 

یوں تو دن چڑھتے ہی روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا تھا پر آج کا دن بھی خوب رہا۔ ادھر پچھلی بات بھولتی تھی ادھرنیا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کی ٹیس کم ہوتی تھی ادھر کوئی چٹکی کاٹ لیتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار میں ہوا وہ تو فقط فل سٹاپ کے طور پر تھا۔

 

صبح سویرے ہی سنتو جمعدارنی نے برآمدے میں گھستے ہی کام کرنے سے انکار کر دیا۔ رانڈ سے اتنا ہی تو کہا تھا کہ نالیاں صاف نہیں ہوتیں۔ ذرا دھیان سے کام کیا کر۔ بس جھاڑ و وہیں پٹخ کر بولی۔

 

’’میرا حساب کر دیں جی....‘‘

 

کتنی خدمتیں کی تھیں بد بخت کی۔ صبح سویرے تام چینی کے مگ میں ایک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوٹے چاول اور باسی سالن روز کا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہینے کی نوکری میں تین نائلون جالی کے دوپٹے۔ امی کے پرانے سلیپر اور پروفیسر صاحب کی قمیض لے گئی تھی۔ کسی کو جرات نہ تھی کہ اسے جمعدارنی کہہ کر بلا لیتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کی سگی پھوپھی تھی۔ ایسی سفید چشم واقع ہوئی کہ فوراً حساب کر۔ جھاڑو بغل میں داب، سر پر سلفچی دھر.... یہ جا وہ جا۔

 

بی بی کا خیال تھا کہ تھوڑی دیر میں آ کر پاؤں پکڑے گی۔ معافی مانگے گی اور ساری عمر کی غلامی کا عہد کرے گی۔ بھلا ایسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ایسی دفان ہوئی کہ دوپہر کا کھانا پک کر تیار ہو گیا پر سنتو مہارانی نہ لوٹی۔

 

سارے گھر کی صفائیوں کے علاوہ غسلخانے بھی دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکی بھی پھیرنی پڑی۔ ابھی کمر سیدھی کرنے کو لیٹی ہی تھی کہ ایک مہمان بی بی آ گئیں۔ منے کی آنکھ مشکل سے  لگی تھی۔ مہمان بی بی حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتی تھیں۔ منا اٹھ بیٹھا اور اٹھتے ہی کھانسنے لگا۔ کالی کھانسی کا بھی ہر علاج کر دیکھا تھا پر نہ تو ہومیوپیتھی سے آرام آیا نہ ڈاکٹری علاج سے۔ حکیموں کے کشتے اور معجون بھی رائیگاں گئے۔ بس ایک علاج رہ گیا تھا اور یہ علاج سنتو جمعدارنی بتایا کرتی تھی۔ بی بی ! کسی کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کیا کھلائیں۔ جو کہے سو کھلا۔ دنوں میں آرام آجائے گا۔

 

لیکن بات تو مہمان بی بی کی ہو رہی تھی۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرمیوں کی دوپہر میں خورشید کو ایک بوتل لینے کے لئے بھگا دیا۔ ساتھ ہی اتنا سارا سودا اور بھی یاد آگیا کہ پورے پانچ روپے دینے پڑے۔

 

خورشید پورے تین سال سے اس گھر میں ملازم تھی۔ جب آئی تھی تو بغیر دوپٹے کے کھوکھے تک چلی جاتی تھی اور اب وہ بالوں میں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگی تھی۔ چوری چوری پیروں کو کیوٹیکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بی پاؤڈر استعمال کرنے لگی تھی۔ جب خورشید موٹی ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالی سکوائش کی بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچی تو سڑکیں بے آباد سی ہو رہی تھیں، نقدی والے ٹین کی ٹرے میں دھرتی ہوئی خورشید بولی۔

 

’’ایک بوتل مٹی کا تیل لا دو.... دو سات سو سات کے صابن.... تین پان سادہ.... چار میٹھے.... ایک نلکی سفید دھاگے کی.... دو لولی پاپ اور ایک بوتل ٹھنڈی ٹھار سیون اپ کی....

 

روڑی کوٹنے والا انجن بھی جا چکا تھا اور کولتار کے دو تین خالی ڈرم تازہ کوٹی ہوئی سڑک پر اوندھے پڑے تھے۔ سڑک پر سے حدت کی وجہ سے بھاپ سی اٹھتی نظر آتی تھی۔

 

دائی کی لڑکی خورشید کو دیکھ کر سراج کو اپنا گاؤں یاد آگیا۔ دھلے میں اسی وضع قطع، اسی چال کی سیندوری سے رنگ کی نو بالغ لڑکی حکیم صاحب کی ہوا کرتی تھی۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتی تھی۔ انگریزی صابن سے منہ دھوتی تھی اور شاید خمیرۂ گاؤ زبان اور کشتۂ مروارید بمعہ شربت صندل کے اتنی مقدار میں پی چکی تھی کہ جہاں سے گزر جاتی سیب کے مربے کی خوشبو آنے لگتی۔ گاؤں میں کسی کے گھر کوئی بیمار پڑ جاتا تو سراج اس خیال سے اس کی بیمار پرسی کرنے ضرور جاتا کہ شاید وہ اسے حکیم صاحب کے پاس دوا لینے کے لئے بھیج دے۔ جب کبھی ماں کے پیٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشی ہوتی۔ حکیم صاحب ہمیشہ اس نفخ کی مریضہ کے لئے دو پڑیاں دیا کرتے تھے۔ ایک خالی پڑیا گلاب کے عرق کے ساتھ پینا ہوتی تھی اور دوسری سفید پڑیا سونف کے عرق کے ساتھ۔ حکیم صاحب کی بیٹی عموماً اسے اپنے خط پوسٹ کرنے کو دیا کرتی۔ وہ ان خطوں کو لال ڈبے میں ڈالنے سے پہلے کتنی دیر سونگھتا رہتا تھا۔ ان لفافوں سے بھی سیب کے مربے کی خوشبو آیا کرتی تھی۔

 

اس وقت دائی کرمو کی بیٹی گرم دوپہر میں اس کے سامنے کھڑی تھی اوسارے  میں سیب کا مربہ پھیلا ہوا تھا۔

 

پانچ روپے کا نوٹ نقدی والے ٹرے میں سے اٹھا کر سراج نے چپچی نظروں سے خورشید کی طرف دیکھا اور کھنکھار کر بولا.... ’’ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہہ گئی۔ آہستہ آہستہ کہو نا۔ کیا کیا خریدنا ہے؟‘‘

 

ایک بوتل مٹی کا تیل.... دو سات سو سات صابن.... تین پان سادہ، چار میٹھے۔ ایک نلکی بٹر فلائی والی سفید رنگ کی....۔ ایک بوتل سیون اپ کی.... جلدی کر، گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں۔

 

سب سے پہلے تو سراج نے کھٹاک سے سبز بوتل کا ڈھکنا کھولا اور بوتل کو خورشید کی جانب بڑھا کر بولا۔

 

’’ یہ تو ہو گئی بول اور....‘‘

 

’’بوتل کیوں کھولی تو نے....اب بی بی جی ناراض ہو ں گی۔‘‘

 

’’میں سمجھا کہ کھول کر دینی ہے....‘‘

 

’’میں نے کوئی کہا تھا تجھے کھولنے کے لئے ‘‘

 

’’اچھا اچھا بابا۔ میری غلطی تھی۔ یہ بوتل تو پی لے۔ میں ڈھکنے والی اور دے دیتا ہوں تجھے....‘‘

 

جس وقت خورشید بوتل پی رہی تھی، اس وقت بی بی کا چھوٹا بھائی اظہر ادھر سے گزرا۔ اسے سٹرا سے بوتل پیتے دیکھ کر  وہ مین بازار جانے کی بجائے الٹا چودھری کالونی کی طرف لوٹ گیا اور این ٹائپ کے کوارٹر میں پہنچ کر برآمدے ہی سے بولا۔

 

’’بی بی ! آپ یہاں بوتل کا انتظار کر رہی ہیں اور وہ لاڈلی وہاں کھوکھے پر خود بوتل پی رہی ہے سٹرا لگا کر۔‘‘

 

بھائی تو اخبار والے کے فرائض سر انجام دے کر سائیکل پر چلا گیا لیکن جب دو روپے تیرہ آنے کی ریزگاری مٹھی میں دبائے، دوسرے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل اور بکل میں سات سو سات صابن کے ساتھ سیون اپ کی بوتل لئے خورشید آئی تو سنتو جمعدارنی کے حصے کا غصہ بھی خورشید پر ہی اترا۔

 

’’اتنی دیر لگ جاتی ہے تجھے کھوکھے پر۔‘‘

 

’’بڑی بھیڑ تھی جی....‘‘

 

’’سراج کے کھوکھے پر.... اس وقت؟‘‘

 

’’بہت لوگوں کے مہمان آئے ہوئے ہیں جی .... سمن آباد میں ویسے ہی مہمان بہت آتے ہیں.... سب نوکر بوتلیں لے جا رہے تھے۔‘‘

 

’’جھوٹ نہ بول کمبخت! میں سب جانتی ہوں۔‘‘

 

خورشید کا رنگ فق ہو گیا۔

 

’’کیا جانتی ہیں جی آپ....‘‘

 

’’ابھی کھوکھے پر کھڑی تو.... بوتل نہیں پی رہی تھی۔‘‘

 

خورشید کی جان میں جان آئی۔ پھر وہ بپھر کر بولی۔

 

’’وہ میرے پیسوں کی تھی جی.... آپ حساب کر دیں جی میرا.... مجھ سے ایسی نوکری نہیں ہوتی....‘‘

 

بی بی تو حیران رہ گئی۔سنتو کا جانا گویا خورشید کے جانے کی تمہید تھی۔ لمحوں میں بات یوں بڑھی کہ مہمان بی بی سمیت سب برآمدے میں جمع ہو گئے اور کترن بھر لڑکی نے وہ زبان دراز کی کہ جن مہمان بی بی پر بوتل پلا کر  رعب گانٹھنا تھا وہ الٹا اس گھر کو دیکھ کر قائل ہو گئیں کہ بد نظمی، بے ترتیبی اور بد تمیزی میں یہ گھر حرف آخر ہے۔

 

آناً فاناً مکان نوکرانی کے بغیر سونا سونا ہو گیا۔ادھر جمعدارنی اور خورشید کا رنج تو تھا ہی، اوپر سے پپو کی کھانسی دم نہ لینے دیتی تھی۔۔

 

جب تک خورشید کا دم تھا کم از کم اسے اٹھانے پچکارنے والا تو کوئی موجود تھا۔ اب کفگیر تو چھوڑ چھاڑ کے بچے کو اٹھانا پڑتا۔ اسے بھی کالی کھانسی کا دورہ پڑتا تو رنگت بینگن کی سی ہو جاتی۔ آنکھیں سرخا سرخ نکل آتیں اور سانس یوں چلتا جیسے کٹی ہوئی پانی کی ٹیوب سے پانی رس رس کے نکلتا ہے۔

 

سارا دن وہ یہی سوچتی رہی کہ آخر اس نے کونسا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں اس کی زندگی اتنی کٹھن ہے۔ اس کے ساتھ کالج میں پڑھنے والیاں تو ایسی تھیں گویا ریشم پر چلنے سے پاؤں میں چھالے پڑ جائیں اور یہاں وہ کپڑے دھونے والے تھاپے کی طرح کرخت ہو چکی تھی۔ رات کو پلنگ پر لیٹتی تو جسم سے انگارے جھڑنے لگتے۔ بدبخت خورشید کے دل میں ترس آ جاتا تو دوچار منٹ دکھتی کمر میں مکیاں مار دیتی ورنہ اوئی آئی کرتے نیند آ جاتی اور صبح پھر وہی سفید پوش غریبوں کی سی زندگی اور تندور میں لگی ہوئی روٹیوں کی سی سینک!

 

اس روز دن میں کئی مرتبہ بی بی نے دل میں کہا۔

 

’’ہم سے اچھا گھرانہ نہیں ملے گا تو دیکھیں گے۔ ابھی کل برآمدے میں آئی بیٹھی ہوں گی۔ دونوں کالے منہ والیاں‘‘ پر اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس سے اچھا گھر ملے نہ ملے وہ دونوں اب ٹوک کر نہ رہیں گی۔سارے گھرمیں نظر دوڑاتی تو چھت کے جالوں سے  لے کر رکی ہوئی نالی تک اور ٹوٹی ہوئی سیڑھیوں سے لے کر اندر ٹپ ٹپ برسنے والے نلکے تک عجیب کسمپرسی کا عالم تھا، ہر جگہ ایک آنچ کی کسر تھی۔ تین کمروں کا مکان جس کے دروازوں کے آگے ڈھیلی ڈوروں میں دھاری دار پردے پڑے تھے، عجیب سی زندگی کا سراغ دیتا تھا۔ نہ تو یہ دولت تھی اور نہ ہی یہ غریبی تھی۔ ردی کے اخبار کی طرح اس کا تشخص ختم ہو چکا تھا۔ جب تک ابا جی زندہ تھے اور بات تھی۔ کبھی کبھار مائیکہ جا کر کھلی ہوا کا احساس پیدا ہو جاتا۔ اب تو ابا جی کی وفات کے بعد امی، اظہر اور منی بھی اس کے پاس آ گئے تھے۔ امی زیادہ وقت پچھلی پوزیشن یاد کر کے رونے میں بسر کرتیں۔ جب رونے سے فراغت ہوتی تو وہ اڑوس پڑوس میں یہ بتانے کے لئے نکل جاتیں کہ وہ ایک ڈپٹی کمشنر کی بیگم تھیں اور حالات نے انہیں یہاں سمن آباد میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔منی کو مٹی کھانے کا عارضہ تھا۔ دیواریں کھرچ کھرچ کر کھوکھلی کر دی تھیں۔ نا مراد سیمنٹ کا پکا فرش اپنی نر م نرم انگلیوں سے کرید کر دھر دیتی۔ بہت مرچیں کھلائیں۔ کونین ملی مٹی سے ضیافت کی۔ ہونٹوں پر دہکتا ہوا کوئلہ رکھنے کی دھمکی دی پر وہ شیر کی بچی مٹی کو دیکھ کر بری طرح ریشہ خطمی ہوتی۔

 

اظہر جس کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا، جب اس کالج کے پرنسپل نے تھرڈ ڈویژن کے باعث انکار کر دیا تو دن رات ماں بیٹا مرحوم ڈی سی صاحب کو یاد کر کے روتے رہے۔ ان کے ایک فون سے وہ بات بن جاتی جو پروفیسر فخر کے کئی پھیروں سے نہ بنی۔ امی تو دبی زبان میں کئی بار یہاں تک کہہ چکی تھیں کہ ایسا داماد کس کام کا جس کی سفارش ہی شہر میں نہ چلے۔ نتیجے کے طور پر اظہر نے پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر لیا۔ پروفیسر صاحب نے بہت سمجھایا پر اس کے پاس تو باپ کی نشانی ایک موٹر سائیکل تھا۔ چند ایک دوست تھے جو سول لائنز میں رہتے تھے وہ بھلا کیا کالج والج جاتا۔

 

اس سارے ماحول میں پروفیسر فخر کیچڑ کا کنول تھے۔لمبے قد کے دبلے پتلے پروفیسر .... سیاہ آنکھیں جن میں تجسس اور شفقت کا ملا جلا رنگ تھا۔ انہیں دیکھ کر خدا جانے کیوں ریگستان کے گلہ بان یاد آ جاتے۔ وہ ان لوگوں کی طرح تھے جن کے آدرش وقت کے ساتھ دھندلے نہیں پڑ جاتے.... جو اس لئے محکمہ تعلیم میں نہیں جاتے کہ ان سے سی ایس پی کا امتحان پاس نہیں ہو سکتا۔ وہ دولت کمانے کے کوئی بہتر گر نہیں جانتے۔ انہوں نے تو تعلیم و تدریس کا پیشہ اس لئے چنا تھا کہ انہیں نوجوانوں کی پر تجسس آنکھیں پسند تھیں۔ انہیں فسٹ ائیر کے وہ لڑکے بہت اچھے لگتے تھے جو گاؤں سے آتے تھے اور آہستہ آہستہ شہر کے رنگ میں رنگے جاتے تھے۔ ان کے چہروں سے جو ذہانت ٹپکتی تھی، دھرتی کے قریب رہنے کی وجہ سے ان میں جو دو اور دو چار قسم کی عقل تھی۔پروفیسر فخر انہیں صیقل کرنے میں بڑا لطف حاصل کرتے تھے۔وہ تعلیم کا میلاد النبیﷺ کا فنکشن سمجھتے۔ جب گھر گھر دیے جلتے ہیں اور روشنی سے خوشی کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ ان کے ساتھی پروفیسر جب سٹاف روم میں بیٹھ کر خالص Have-Notsکے انداز میں نو دولتی سوسائٹی پر تبصرہ کرتے تو وہ خاموش رہتے کیونکہ ان کا مسلک لوئی پاسچر کا مسلک تھا۔ کولمبس کا مسلک تھا۔ ان کے دوست جب فسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس اور سلیکشن گریڈ کی باتیں کرتے تو پروفیسر فخر منہ بند کئے اپنے ہاتھوں پر نگاہیں جما لیتے۔ وہ تو اس زمانے کی نشانیوں میں سے رہ گئے تھے جب شاگرد اپنے استاد کے برابر بیٹھ نہ سکتا تھا۔ جب استاد کے آشیر باد کے بغیر شانتی کا تصور بھی گناہ تھا۔ جب استاد خود کبھی حصول دولت کے لئے نہیں نکلتا تھا لیکن تاجدار اس کے سامنے دو زانو آ کر بیٹھا کرتے تھے۔ جب وہ شاہ جہانگیر کے دربار میں میاں میر صاحب کی طرح کہتا کہ: ’’اے شاہ! آج تو بلا لیا ہے پر اب شرط عنایت یہی ہے کہ پھر کبھی نہ بلانا۔‘‘

 

جب استاد کہتا۔’’اے حاکم وقت! سورج کی روشنی چھوڑ کر کھڑا ہو جا۔‘‘

 

جب بی بی نے پہلی بار پروفیسر فخر کو دیکھا تھا تو فخر کی نظروں کا مجذوبانہ حسن شہد کی مکھیوں جیسا جذبۂ خدمت اور صوفیائے کرام جیسا اندازِ گفتگو اسے لے ڈوبا۔ بی بی ان لڑکیوں میں سے تھی جو درخت سے مشابہ ہوتی ہیں۔ درخت چاہے کیسا ہی آسمان چھونے لگے، بالآخر مٹی کے خزانوں کو نچوڑتا ہی رہتا ہے۔ وہ چاہے کتنے ہی چھتنار کیوں نہ ہو، بالآخر اس کی جڑوں میں نیچے اترتے رہنے کی ہوس باقی رہتی ہے.... اور پھر پروفیسر کا آدرش کوئی مانگے کا کپڑا تو تھا نہیں کہ مستعار لیا جاتا لیکن بی بی تو ہوا میں جھولنے والی ڈالیوں کی طرح یہی سوچتی رہی کہ اس کا دھرتی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہوا میں زندہ رہ سکتی ہے۔ محبت ان کے لئے کافی ہے۔

 

تب ابا جی زندہ تھے اور ان کے پاس شیشوں والی کار تھی جس روز وہ بی اے کی ڈگری لے کر یونیورسٹی سے نکلی تو اس کے ابا جی ساتھ تھے۔ ان کی کار رش کی وجہ سے عجائب گھر کی طرف کھڑی تھی۔ مال کو کراس کر کے جب وہ دوسری جانب پہنچے تو فٹ پاتھ پر اس نے پروفیسر کو دیکھا۔ وہ جھکے ہوئے اپنی سائیکل کا پیڈل ٹھیک کر رہے تھے۔

 

’’سر سلام علیکم....!‘‘

 

فخر نے سر اٹھایا اور ذہین آنکھوں میں مسکراہٹ آ گئی۔

 

’’وعلیکم السلام۔ مبارک ہو آپ کو....‘‘

 

سیاہ گاؤن میں وہ اپنے آپ کو بہت معزز محسوس کر رہی تھی۔

 

’’سر میں لے چلوں آپ کو....‘‘

 

بڑی سادگی سے فخر نے سوال کیا.... ’’آپ سائیکل چلانا جانتی ہیں؟‘‘

 

’’سائیکل پر نہیں جی.... میرا مطلب ہے کار کھڑی ہے۔ جی میری۔‘‘

 

فخر سیدھا کھڑا ہو گیا اور بی بی اس کے کندھے کے برابر نظر آنے لگی۔

 

دیکھیے مس.... استادوں کے لئے کاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے شاگرد کاروں میں بیٹھ کر دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ استادوں کو دیکھ کر کار روکتے ہیں لیکن استاد شاگردوں کی کار میں کبھی نہیں بیٹھتا کیونکہ شاگرد سے اس کا رشتہ دنیاوی نہیں ہوتا۔ استاد کا آسائش سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ مرگ چھالا پر سوتا ہے۔ بڑ کے درخت تلے بیٹھتا اور جو کی روٹی کھاتا ہے۔

 

بی بی کو تو جیسے ہونٹوں پر بھڑ ڈس گئی۔ابھی چند ثانیے پہلے وہ ہاتھوں میں ڈگری لے کر فل سائز فوٹو کھنچوانے کا پروگرام بنا رہی تھی اور اب یہ گاؤن، یہ اونچا جوڑا، یہ ڈگری، سب کچھ نفرت انگیز بن گیا۔ جب مال روڈ پر ایک فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کار روک کر اباجی نے کہا۔

 

’’ایک تو فائز سائز تصویر کھنچوا لو اور ایک پورٹریٹ....‘‘

 

’’ابھی نہیں ابا جی! میں پرسوں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر تصویر کھنچواؤں گی۔‘‘

 

’’صبح کی بات پر ناراض ہو ابھی تک؟‘‘ اباجی نے سوال کیا۔

 

’’نہیں جی وہ بات نہیں ہے۔‘‘

 

صبح جب وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی تو ابا جی نے دبی زبان میں کہا تھا کہ وہ کنووکیشن کے بعد اسے فوٹو گرافر کے پاس نہ لے جا سکیں گے کیونکہ انہیں کمشنر سے ملنا تھا۔ اس بات پر بی بی نے منہ تھتھا لیا تھا.... اور جب تک ابا جی نے وعدہ نہیں کر لیا تب تک وہ کار میں سوار نہ ہوئی تھی۔

 

اب کار فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کھڑی تھی۔ ابا جی اس کی طرف کا دروازہ کھولے کھڑے تھے لیکن تصویر کھنچوانے کی تمنا آپی آپ مر گئی۔

 

بی اے کرنے کے بعد کالج کا ماحول دور رہ گیا۔ یہ ملاقات بھی گرد آلود ہو گئی اور غالباً طاقِ نسیاں پر بھی دھری رہ جاتی اگر اچانک کتابوں کی دکان پر ایک دن اسے پروفیسر فخر نظر نہ آ جاتے۔  وہ حسب معمول سفید قمیض خاکی پتلون میں ملبوس تھے۔ رومن نوز پر عینک ٹکی ہوئی تھی اور وہ کسی کتاب کا غور سے مطالعہ کر رہے تھے۔ بی بی اپنی دو تین سہیلیوں کے ساتھ دکان میں داخل ہوئی.... اسے ویمن اینڈ ہوم قسم کے رسالے درکار تھے۔ عید کارڈ اور سٹچ کرافٹ کے پمفلٹ خریدنے تھے۔ لو کیلری  ڈائٹ قسم کی ایسی کتابوں کی تلاش تھی جو سالوں میں بڑھایا ہوا وزن ہفتوں میں گھٹا دینے کے مشورے جانتی ہیں لیکن اندر  گھستے ہی گویا آئینے کا لشکارا پڑا۔

Download

Post a Comment

0 Comments