Mushif by Nemrah Ahmed - مصحف از نمرہ احمد

 Mushif by Nemrah Ahmed - مصحف از نمرہ احمد


"جی واقعی! ان کے چبا کر کہنے پہ وہ مسکرایا-
"ٹھیک ہے محمل بی بی ! تھانے چلیئے آپ سلطانی گواہ ہیں،گواہی دیں اور فواد کریم کو ساری زندگی جیل میں سڑتا دیکھیں- میں نے تو سوچا تھا گھر کی بات گھر میں رہ جائے،لیکن اگر آپ چاہتے ہو کہ ساری دنیا کو علم ہو کہ فواد نے گھر کی بچی کا سودا کیا ہے تو ٹھیک ہے،ہم اس سلطانی گواہ کو ساتھ لے چلتے ہیں نہ آپ اس بچی کو سمجھا بجھا کر چپ کرا سکیں گے،نہ ہی فواد کبھی باہر آئے گا- چلو محمل-
ارے نہیں اے ایس پی صاحب محمل ہماری بچی ہے-بھائی صاحب بس یونہی ناراض ہیں،ہمیں یقین ہے کہ یہ پولیس کی حفاطت میں رہی ہے-عزت سے گھر آئی ہے-غفران چچا نے بوکھلا کر بات سنبھالی-
نہ بھی یقین کریں ،تو بھی ہم نے محمل کو مسجد بجھوا دیا تھا-عورتوں کی مسجد ہے- میری بہن ادھر پڑھاتی ہے- اس نے آغا جان کو بغور دیکھتے ہوئے بہن پر زور دیا اور ایک سخت نظر ڈالتا ہوا پلٹ گیا-
وہ ابھی تک ویسے ہی شاکڈ ساکت کھڑی تھی-جیسے اسے آغا جان کے الفاظ کا ابھی تک یقین نہیں آیا تھا-
گاڑیاں گیٹ سے باہر نکل گئیں ۔۔۔۔ غفران چچا موبائل پر کوئی نمبر ملانے لگے- تائی مہتاب زور زور سے رونے لگیں-
یہ سارا اسی منحوس کا کیا دھرا ہے-اسے گھر سے نکالیئے آغا صاحب،کمبخت نے میرے بچے کو پھنسا دیا- اپنے باپ کے ساتھ کیوں نہیں مر گئی؟
وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھی مگر حسن درمیان میں آگیا-
کیا کر رہی ہیں آپ تائی اماں؟ان کے دونوں ہاتھ گرفت میں لیئے اس نے بمشکل انہیں باز رکھا-
"بھلا ایک لڑکی کے کہنے پر فواد کریم جیسے اثر و رسوخ رکھنے والے آدمی کے اریسٹ وارنٹ جاری ہو سکتے ہیں؟
یہ جھوٹ بکتی ہے میں اسے جان سے مار دوں گی-
محمل اندر جاؤ - فضہ چاچی نے آہستہ سے کہا تو وہ چونکی پھر اندر کی طرف دوڑی-
فضہ اور ناعمہ نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا-آغا جان ڈرائیووے کی طرف بڑھ گئے تھے-تائی اماں ابھی تک حسن کے بازوؤں میں رو اور چیخ رہی تھیں-
وہ بھاگتی ہوئی برآمدے کے سرے پر رکی ستون سے لگی کھڑی مسرت نے منہ پھیر لیا- اسے دھکا سا لگا-
اماں ۔۔۔۔۔ ! اس کی آنکھوں میں مرچیں سی چبھنے لگیں-
اے محمل ۔۔۔۔۔! آرزو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ ذرا سا چونکی-
یہ ہینڈسم آفیسر کون تھا؟
یہ ہمایوں تھا ہمایوں داؤد-
ہوں نائس نیم-کدھر رہتا ہے؟
جہنم میں-ایڈریس چاہیئے؟وہ زہر خندہ ہوئی تو آرزو نے منہ سا بنا لیا- محمل اس کا ہاتھ جھٹک کر ایک شکوہ کناں سی نظر ماں پر ڈال کر اندر بھاگتی گئی-
ہمایوں داؤد ۔۔۔۔۔۔۔ ! آرزو زیر لب مسکرائی- اور پھر توس کھانے لگی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گھر میں اگلے کئی روز تک خاموشی چھائی رہی-بس ایک حسن تھا جو ہر وقت ہر ایک کے سامنے اس کا دفاع کرتا نظر آتا تھا-
اگر محمل کی جگہ آرزو ہوتی تو بھی آپ یہی کہتی چچی؟وہ ناعمہ کی کسی بات پر بھڑک کے بولا - تو وہ جو سر منہ لپیٹے اندر پڑی تھی-جھٹکے سے اٹھی اور تیزی سے باہر آئی-
آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے ہر ایک کے سامنے میری صفائی دینے کی-وہ لاؤنج میں آ کر ایک دم چکا کر بولی تو سب چونک کر اسے دیکھنے لگے-
مگر محمل!
اگر ان لوگوں نے یونہی مجھے پورے خاندان میں بے عزت کرنا ہے تو ٹھیک ہے-اگر عزت ایک دفعہ چلی گئی تو میں کس عزت کو بچانے کے لیئے کورٹ میں چپ رہوں گی؟ میں بھی بھری عدالت میں پورے شہر کو بتاؤں گی سن لیں آپ سب-
اپنے پیچھے دھاڑ سے دروزہ بند کر کے اس نے پھر سے خود کو کمرے میں بند کر لیا-
اندر مسرت بستر کی چادر درست کر رہی تھیں-
اسے آتا دیکھ کر لمحے بھر کو سر اٹھایا،پھر واپس کام مصروف ہوگئیں-
" آپ بھی مجھ سے ناراض ہیں اماں؟ مسرت خآموشی سے تکیئے پہ غلاف چڑھاتی رہی-
"اماں ! اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے- وہ تکیئے درست کر کے دروازے کی طرف بؔڑھی-
میں نے کیا کیا ہے اماں؟وہ رو پڑی تھی-
دروازے کی طرف بڑھتی مسرت نے گردن موڑی-
"تم نے اچھا نہیں کیا محمل- وہ بہت دنوں بعد بولی تھیں-
اماں- وہ تڑپ کر ان کے قریب آئی- فواد بھائی نے مجھے فنکشن کا کہہ کر ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پتا ہے-
پتہ ہے مگر یقین نہیں ہے؟
" میں برسوں ان کی خدمت کرتی رہی کہ شاید کبھی یہ ہمیں کچھ عزت دیں، مگر میری بیٹی ان ہی کے بیٹے کو پکڑوا کر کورٹ کچہری میں گواہی دیتی پھرے ۔۔۔۔۔۔ پہلے زندگی کم مشکل تھی محمل جو تم نے اور مشکل بنا دی؟ وہ تھکی تھکی سی پلٹ گئی-
وہ نم آنکھوں سے انہیں جاتے ہوئے دیکھتی رہی-
ایک غلط قدم اسے یہاں لا پہنچائے گا اس نے سوچا بھی نہ تھا-



Post a Comment

0 Comments