Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum, Jalaluddin Qasmi, Poetic Analysis, پس نوشت از اشفاق انجم پر تبصرہ, جلال الدین قاسمی, شاعرانہ تجزیہ,

 Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum, Jalaluddin Qasmi, Poetic Analysis, پس نوشت از اشفاق انجم پر تبصرہجلال الدین قاسمیشاعرانہ تجزیہ,

Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum, Jalaluddin Qasmi, Poetic Analysis, پس نوشت از اشفاق انجم پر تبصرہ, جلال الدین قاسمی, شاعرانہ تجزیہ,

 

شاعری کسی خاص تہذیب میں ہوتی ہے، کبھی اُس سے ہم آہنگی کی حالت میں اور کبھی انحراف کی صورت میں۔ خورشید رضوی صاحب کی شاعری کا مجموعی سیاق و سباق تہذیبی ہے۔ آج بہت کم شاعر ایسے رہ گئے ہیں جو تہذیب اور اس کے اصول ومظاہر کو مربوط رکھنے والی نسبت کے ضروری اجزا پر نہ صرف یہ کہ ذہنی دسترس رکھتے ہوں بلکہ یہ نسبت اخلاقی اور جمالیاتی زاویوں سے ان کا تجربہ بھی بن چکی ہو، اور یہ تجربہ فکر کی تشکیل میں صرف ہونے کے ساتھ ساتھ قلبی اور نفسیاتی احوال میں بھی ڈھل جاتا ہو۔ تہذیب کا ایک دماغ بھی ہوتا ہے، شاعر اس دماغ سے پیدا ہونے والے خیالات کو ان کے تنوع اور بنیادی وحدت کے ساتھ ایک جمالیاتی در وبست دیتا ہے۔ اسی طرح تہذیب کا ایک دل بھی ہے جہاں وہ خیالات احوال بنتے ہیں۔ تہذیب سے ہم آہنگ شاعری میں وہ احوال ایک احساساتی وحدت اورایک وجدانی اکائی بننے کے عمل میں نظر آتے ہیں۔ ایسی شاعری میں اظہار کے تمام اسالیب اپنے تہذیبی اصول کے متنوع مظاہر کی طرح ہوتے ہیں۔ خورشید رضوی صاحب کی پوری شاعری در اصل تہذیب کے ضمیر میں راسخ آئیڈیا کو طرح طرح سے ادراک کرنے اور نئے نئے انداز سے اظہار دینے کا ایک ایسا عمل ہے جس کی تکمیل کا شاید کوئی بھی مرحلہ نشاطیہ نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی لمبا سفر ہے جو اِدھر اُدھر بھٹکے بغیر ایک المیاتی یکسوئی اور انہماک کے ساتھ جاری ہے۔ زیرِ نظر مجموعہ ”پس نوشت“ بھی، ظاہر ہے، اس المیہ وفور سے خالی نہیں جس سے خورشید صاحب کے تخلیقی تجربے کی بنیادی معنویت اور کیفیت تشکیل پاتی ہے۔مثلاً ایک غزل کے کچھ اشعار دیکھیے:

لیا ہے خاک میں خود کو ملا، ملا نہیں کچھ

یہ کارِ زیست عبث ہے، یہاں رکھا نہیں کچھ

سخن وری بھی، فقیری بھی، پادشاہی بھی

سب ایک آگ میں جھونکے گئے، بچا نہیں کچھ

یہ گردبادِ حوادث ہے، کس کو چھوڑتی ہے

یہ تند سیلِ زمانہ ہے، دیکھتا نہیں کچھ

زمیں لرز اٹھے گی، آسمان گر پڑے گا

ہزار طرح کے اندیشے تھے، ہوا نہیں کچھ

نہ گنبدوں میں صدا ہے نہ آئنوں میں شبیہ

گئے ہم ایسے کہ اب دور تک پتا نہیں کچھ

تمام عمر خموشی کے بعد حاصلِ عمر

کہا تو ہم نے، کسی نے مگر سنا نہیں کچھ

اس پوری غزل کا آہنگ ہی ایسا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ناکامی پر ایسا فخر کیا جا رہا ہے جو کامیابی کے غرور سے زیادہ ہے۔ اور جو شخصیت اس تجربے کے تاریخی، تہذیبی اور نفسیاتی احوال سے گزر رہی ہے، وہ اُس دیوار کی طرح ہے جو تعمیر ہو کر ادھوری تھی اور منہدم ہوکر مکمل ہوگئی۔ یہ ایک paradox ہے جو خورشید صاحب کے ہاں مزاجِ ادراک کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی کی بدولت اِن کی شاعری میں متضاد اور متصادم احساسات کو بھی ایک تالیفی وحدت میں کھپا دینے کا نادر وصف جابجا نظر آتا ہے۔

 

اس کتاب پس نوشت از اشفاق انجم پر تبصرہ (Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum) کی میزبان محفوظ شدہ دستاویزات کی تنظیم  arvhive.org ہے جہاں سے مندرجہ ذیل کڑیاں ملائی گئی ہیں اور اس کتاب کو اجازت نامہ Public Domain Mark 1.0 کے تحت تقسیم کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ لائسنس کے کسی مسئلے یا معلومات کی صورت میں متعلقہ میزبان تنظیم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

 

 

نام کتاب، Book Name

Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum

پس نوشت از اشفاق انجم پر تبصرہ

مصنف، Author

Jalaluddin Qasmi

جلال الدین قاسمی

Edition, ایڈیشن

 

صفحات، Pages

11,6

حجم، Size

2.50 MB, 9.20 MB

ناشر(ان)، Publisher(s)

 

مطبع، Printers

 

 

 

Read Book – Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum – 1

Read Book – Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum – 2

Download Book – Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum – 1

Download Book – Commentary on Pas-e-Nosht by Ashfaque Anjum – 2

 


Post a Comment

0 Comments