Basti, Intizar Hussain, Novel, بستی, انتظار حسین, ناول,
Basti, Intizar Hussain, Novel, بستی, انتظار حسین, ناول,
جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، جب آسمان تازہ تھا اور زمین
ابھی میلی نہیں ہوئی تھی جب درخت صدیوں میں سانس لیتے تھے اور پرندوں کی آوازوں میں
جگ بولتے تھے۔ کتنا حیران ہوتا تھا وہ ارد گرد کودیکھ کر۔ ہر چیز کتنی نئی تھی اور
کتنی قدیم نظر آتی تھی۔ نیل کنٹھ، کھٹ بڑھیا، مور، فاختہ، گلہری، طوطے جیسے سب اس
کے سنگ پیدا ہوئے تھے، جیسے سب جگوں کے بھید سنگ لئے پھرتے ہیں۔ مور کی جھنکار
لگتا کہ روپ نگر کے جنگل سے نہیں برندابن سے آرہی ہے۔ کھٹ بڑھیا اڑتے اڑتے انوچے نیم
پر اترتی تو دکھائی دیتا کہ وہ ملکہ صباء کے محل میں خط چھوڑ کے آرہی ہے اور حضرت
سلیمان کے قلعے کی طرف جارہی ہے اور جب گلہری منڈیر پر دوڑتے دوڑتے اچانک دم پر
کھڑی ہو کے چک چک کرتی تو وہ اسے دیکھنے لگتا اور حیرت سے سوچتا کہ اس کی پیٹھ پر
پڑی یہ کالی دھاریاں چندجی کے انگلیوں کے نشان ہیں اور ہاتھی تو حیرت کا ایک جہان
تھا۔ اپنی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر جب وہ اسے دور سے آتا دیکھتا تو بالکل ایسا لگتا
کہ پہاڑ چلا آرہا ہے۔ یہ بلی سونڈ، بڑے بڑے کان پنکھوں کی طرح ہلتے ہوئے تلوار کی
طرح خم کھائے ہوئے دو سفید سفید سے دانت دو طرف نکلے ہوئے اسے دیکھ کر وہ حیران
اندر آتا اور سیدھا بھابی اماں کے پاس پہنچتا۔
"بی
اماں، ہاتھی پہلے اڑا کرتے تھے؟"
"ارے تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ہے"
"بھگت جی کہ رہے تھے"
"ارے اس بھگت کی عقل پر تو پتھر پڑ گئے ہیں لو
بھلا لحیم شحیم جانور، وہ ہوا میں کیسے اڑے گا"
"بی اماں! ہاتھی پیدا کیسے ہوا تھا؟"
"کیسے پیدا
ہوتا۔ میا نے جنا، پیدا ہوگیا"
"نہیں بی اماں ہاتھی انڈے سے نکلا ہے"
جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، جب آسمان تازہ تھا اور زمین
ابھی میلی نہیں ہوئی تھی جب درخت صدیوں میں سانس لیتے تھے اور پرندوں کی آوازوں میں
جگ بولتے تھے۔ کتنا حیران ہوتا تھا وہ ارد گرد کودیکھ کر۔ ہر چیز کتنی نئی تھی اور
کتنی قدیم نظر آتی تھی۔ نیل کنٹھ، کھٹ بڑھیا، مور، فاختہ، گلہری، طوطے جیسے سب اس
کے سنگ پیدا ہوئے تھے، جیسے سب جگوں کے بھید سنگ لئے پھرتے ہیں۔ مور کی جھنکار
لگتا کہ روپ نگر کے جنگل سے نہیں برندابن سے آرہی ہے۔ کھٹ بڑھیا اڑتے اڑتے انوچے نیم
پر اترتی تو دکھائی دیتا کہ وہ ملکہ صباء کے محل میں خط چھوڑ کے آرہی ہے اور حضرت
سلیمان کے قلعے کی طرف جارہی ہے اور جب گلہری منڈیر پر دوڑتے دوڑتے اچانک دم پر
کھڑی ہو کے چک چک کرتی تو وہ اسے دیکھنے لگتا اور حیرت سے سوچتا کہ اس کی پیٹھ پر
پڑی یہ کالی دھاریاں چندجی کے انگلیوں کے نشان ہیں اور ہاتھی تو حیرت کا ایک جہان
تھا۔ اپنی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر جب وہ اسے دور سے آتا دیکھتا تو بالکل ایسا لگتا
کہ پہاڑ چلا آرہا ہے۔ یہ بلی سونڈ، بڑے بڑے کان پنکھوں کی طرح ہلتے ہوئے تلوار کی
طرح خم کھائے ہوئے دو سفید سفید سے دانت دو طرف نکلے ہوئے اسے دیکھ کر وہ حیران
اندر آتا اور سیدھا بھابی اماں کے پاس پہنچتا۔
"بی
اماں، ہاتھی پہلے اڑا کرتے تھے؟"
"ارے تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ہے"
"بھگت جی کہ رہے تھے"
"ارے اس بھگت کی عقل پر تو پتھر پڑ گئے ہیں لو
بھلا لحیم شحیم جانور، وہ ہوا میں کیسے اڑے گا"
"بی اماں! ہاتھی پیدا کیسے ہوا تھا؟"
"کیسے پیدا
ہوتا۔ میا نے جنا، پیدا ہوگیا"
"نہیں بی اماں ہاتھی انڈے سے نکلا ہے"
Post a Comment
0 Comments