Amraz-ul-Itifal, Hakim Khursheed Azami, Medicine, امراض الاطفال, حکیم خورشید اعظمی, طب,

 Amraz-ul-Itifal, Hakim Khursheed Azami, Medicine, امراض الاطفال, حکیم خورشید اعظمی, طب, 



فلسفہ، ادب اور دیگر علوم و فنون کی طرح طب یونانی بھی ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہے۔ آج یہ ایک طریقہ علاج نہیں ہے بلکہ اس سے بھی کچھ سوا ہے اور ہماری گنگا جمنی تہذیب کا ایک شاندار حصہ۔ یہ طب ہندوستان میں محمود غزنوی کے ساتھ آئی اور ضیاء الدین عبد الرافع ہروی کا نام پہلے طبیب کے طور پر تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے جو غزنوی سلطنت کے آخری تاجدار خسروملک کا درباری طبیب تھا۔ چونکہ طب یونانی کو یہاں کی آب و ہوا اور ماحول انتہائی راس آئے لہذا عوام و خواص دونوں میں مقبول ہوتی چلی گئی۔ 


عہد غلامان میں تو اسے خوب عروج ملا، اس کے بعد خلجی عہد، تغلق عہد، لودھی عہد اور پھر مغلیہ سلطنت کے دور میں طب یونانی ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی۔ ذاتی عملی مطب اور شاہی شفاخانوں کے علاوہ سریری، تعلیمی و تدریسی تقاضوں کی پا بجائی کے لئے مختلف موضوعات پر دقیع کتابیں بھی لکھی گئیں، لیکن یہ سارا سرمایہ ہنوز فارسی زبان میں تھا۔ نجی مطب مدرسوں اور طبی اداروں میں بھی ذریعہ تعلیم عربی و فارسی تھا۔ اردو زبان اور طب کا رشتہ اٹھارھویں صدی میں فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج کے قیام کے کچھ دن بعد استوار ہوا۔ انیسویں صدی کے اختتام تک اردو میں جونثری اور شعری سرمایہ اردو کے دامن میں پہنچا اس پر طب یونانی کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔




Post a Comment

0 Comments