Raat, Abdullah Hussain, Novel, The Night, رات, عبد اللہ حسین, ناول,

 Raat, Abdullah Hussain, Novel, The Night, رات, عبد اللہ حسین, ناول, 


"شوکی' کہاں چلے جارہے ہو؟" لڑکی نے پوچھا۔    

"کہیں بھی نہیں" وہ خوشدلی سے بولا۔ 

"بھئی آہستہ چلو" وہ بولی: "میں تھک گئی ہوں۔"، 

"بہت اچھا" 

دونوں خاموشی سے چلتے رہے۔ 

"شوکت" وہ پھر بولی: "خدا کے لئے۔۔۔۔۔۔" "ہنہہ" "کہاں جا رہے ہو؟"  

"چلے پون کی جاآآآل۔ " وہ گا کر بولا۔ 

"شوکی چپ رہو" وہ سختی سے بولی: "لوگ سن رہے ہیں" 

"جگ میں چلے پون کی چاآل ل۔ " وہ گاتا رہا۔ رفتہ رفتہ وہ بہت پیچھے رہ گئی۔  پھر ایک جگہ پر اچانک رک کر وہ ادھر ادھر دیکھنےلگا۔ پاؤں میں الجھتی ہوئی ساری کو دو انگلیوں میں تھامے وہ ہانپتی ہوئی اس کے پاس آکر رک گئی۔ اس کی ناک پھننگ پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ 

"چلو اب گھر چلیں" وہ بولی  

اس نے مڑ کر غور سے اس لڑکی کو دیکھا، جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ 

"چلو گھر چلیں" وہ سانس روک کر بولی۔ 

"چلو" وہ جیبوں میں ہاتھ ڈال کر پھر چلنے لگا۔ 

لیکن ان کا فلیٹ پیچھے کی طرف تھا اور وہ آگے کو جارہے تھے۔ اسی لیے جب وہ بولی تھی: "چلو گھر چلیں" تو اس کی آواز میں ایک انجانے خوف کی لرزش تھی۔ اس لیے کہ وہ یہ جانتی تھی کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔ وہ اتنے عرصے سے اس کی بیوی تھی۔  اب یہ اس عظیم الشان ساحلی شہر کا سب سے بڑا بازار تھا جسے وہ پار کر رہے تھے۔ پھر وہ اسے پار کرنے کی بجائے اس کے بیچوں بیچ چلنے لگے۔ وہ بازار میں چلے جارہے تھے اور دو رویہ بجلی کی ٹیوبوں کی دودھیا سفید ہلکے ابر آلود آسمان کی سی روشنی تھی اور دکانیں اور شو کیس جگمگا رہے تھے اور رکشا اور موٹریں اور گدھے اور ہر طرح کے لوگ ان کے ساتھ ساتھ بازار کی بیچوں بیچ چل رہے تھے۔ اگلے چوک تک پہنچتے پہنچتے اس نے ایک آخری کوشش کی: "شوکی" وہ بولی: "ابھی تو چائے پی کر چلے ہیں۔


Download

Post a Comment

0 Comments