Bano Qudsia
Rahe Rawan, Bano Qudsia, Novel, راہ رواں, بانو قدسیہ, ناول,
Rahe Rawan, Bano Qudsia, Novel, راہ رواں, بانو قدسیہ, ناول,
"راہ ِرواں"
صرف ایک راہ ہی نہیں ایک مکمل شاہراہ ہے ۔زندگی کو جاننے کی ،رشتوں کو برتنے کی ،تعلقات کو سمجھنے کی ،بندھن کو پرکھنے کی ۔ یہ وہ داستان الف لیلٰی ہے جو پڑھنے والے کی اُس کے معیار،اُس کے مزاج پرآ کر تسکین کرتی ہے،چاہے کوئی تاریخ کا طالب ِعلم ہو یا محبت کے مدرسے کا طُفل ِمکتب اور یا پھر زندگی کے اسباق بار بار پڑھ کر اُکتا چکا ہو ۔یہ کتاب ہر ایک کو ماں کی آغوش کی طرح اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ کتاب کے فنی اور ادبی محاسن سے قطع نظر اس کی خوشبو اتنی دل آویز ہے کہ اس پر بات کرنے کے لیے صفحات بھی کم پڑتے ہیں ۔ "راہ ِرواں" کے چیدہ چیدہ صفحات جو مجھے اس کے سحر سے باہر نہیں نکلنے دیتے تھے اب آپ کے ساتھ دوبارہ پڑھنا چاہتی ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی مہک سے بجا طور پر مُستفید ہو سکیں۔
راہ رواں از بانو قدسیہ سے منتخب اقتباسات۔۔۔
پہلا صفحہ : 7 ۔۔۔۔
گھر سے گھر تک ( آغاز ِکتاب) ساتھ رہتے ہوئے بھی خاں صاحب ہر انسان کی طرح میرے لیے مانوس اجنبی تھے۔ میں انہیں کالج میں ملی ۔ پھر ہم نے گھر بسایا ۔ کرائے کے مکان بدلے اورآخری مرحلے میں اپنا گھر 121- سی ،ماڈل ٹاؤن میں بنا لیا ۔جہاں سے وہ اپنے اصلی گھر کو روانہ ہو گئے۔ یہ گھر اُن کی رُخصتی کے بعد گھر نہ رہا ،شہرت مابعد کا خزینہ بن گیا۔
صفحہ 9۔۔۔۔۔
ہمارے بابا جی نوروالے کہا کرتے تھے کہ جس درجے کی توفیق نہ ہو اُس کا اعلان نہیں کرنا چاہیے۔یہ بات عمر کے آخری حصے میں سمجھ آئی لیکن اُس وقت خاں صاحب کو خط لکھ کر،خط پا کر کچھ ایسا سرور ملتا تھا کہ اس شغل سے چھٹکارا ممکن نہ تھا۔محبت کا دماغ میں وہیں وقوف ہے جہاں عادت،نشہ ،اُکساہٹ اور لذت کا مقام ہے۔ سگریٹ،ہیروئن،چرس،بھنگ،افیون یہ سارے شوق 'ھل من مزید' کا نعرہ لگاتے ہیں۔کچھ ایسی ہی کیفیت محبت کی بھی ہے۔۔۔یہ آخری بار مل لوں۔۔۔آخری باردیکھ لوں۔۔۔بس یہی آخری لمس ہوگا۔غالباً جنس اور محبت دو علیحٰدہ دماغی حصوں میں بسرام کرتے ہیں۔محبت تسلسل کی آروز مند ہے جبکہ سیکس اُبال کی شکل میں گھیرا ڈالتی ہے۔۔۔محبت کا متلاشی کبھی کبھی جان سے گزر جانے کو بھی کھیل سمجھتا ہے،مشکل تب پیش آتی ہے جب محبت میں اعتراف کی گانٹھ دونوں رسیوں میں مضبوط ہو جاتی ہے۔
اب اس محبت کو دائمی بنانے کی اُلجھن شادی کا کہا اور اّن کہا وعدہ بن جاتی ہے۔۔۔۔روز ازل سے مرد اور عورت جب کبھی محبت کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، اُنہیں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ سفر جو اُنہیں ایک دوسرے سے کمٹ کر رہا ہے،لمبا بھی ہے اور پُرخطر بھی۔اس میں وعدے کا پاس بسااوقات گلے کا پھندا بن جاتا ہے۔جس طرح کبھی کبھی منشیات بڑی قیمت وصول کرتی ہیں۔ایسے ہی محبت اور شادی پر منتج ہونے والی محبت ایک بہت بڑا چیلنج بن کر زندگی میں داخل ہوتی ہے۔۔۔۔۔
جس درجے کی توفیق نہ ہو اُس کا اعلان کر چکنے کے بعد آدمی کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ روزمرہ زندگی میں نشہ آور سرور کہاںگم ہو گیا؟ وہ ربط باہمی کس مقام پر کیوں اور کیسےکل ایش میں بدل گیا۔۔۔انسان چونکہ فطرتاً آزاد ہے۔اس شادی کے بندھن میں جو سب سے بڑا چیلنج اُسے پیش آتا ہے ۔وہ یہی فری ول کی آزادی ہے۔
...... free will.... commit..... clash
صفحہ :13 تا 31۔۔۔۔۔۔۔
: اشفاق صاحب ۔۔۔۔ خاندان تعارف
مہمند پٹھان ۔۔۔ پنجاب میں ہوشیارپور آباء واجداد کا پہلا ٹھکانہ
پردادا ۔۔۔ معظم خان
دادا۔۔۔۔۔ دوست محمد خان۔۔ ریاست حیدرآباد دکن ۔۔۔ دربار میں اپنی فضیلت ،فارسی دانی اورعلم دوستی کے باعث اتالیق کے عہدے پر فائز رہے۔
والد ۔۔۔ محمد خان۔۔۔ گورنمنٹ کالج سے ملحق موٹمورنسی کالج میں( جسے عوام ڈنگر ہسپتال کہتے تھے) تعلیم حاصل کی بعد میں مُکستر مشرقی پنجاب کے ایک قصباتی گاؤں میں رہائش اختیار کی ۔
والدہ ۔۔۔۔ بی بی سردار بیگم
صفحہ:19۔۔۔۔۔
بابا محمد خاں کے گھر نو بچوں نے جنم لیا ۔عجیب سی بات ہے کہ سب بچے دو دو سال کے وقفے کے بعد 20 مئی کو پیدا ہوئے.صرف اشفاق صاحب 22 اگست1925ء میں اس دُنیا میں تشریف لائے ۔ سنا ہے اسی دن بابا دوست محمد خاں دُنیا سے رُخصت ہوئے تھے. سنا ہے خاں صاحب ہو بہو اپنے دادا سے مشابہ تھے۔
صفحہ :32۔۔۔۔۔
خاندان کا شجرہ نسب
صفحہ :45 ۔۔۔۔۔
کھڑکی کے ساتھ لگ کر ایک نوجوان کھڑا تھا ۔ گورا چٹا خوبصورت لڑکا جس نے کھڑکی کے ساتھ کہنی ٹیک رکھی تھی۔ جس وقت میں وہاں پہنچی وہ فوراً مودب انداز میں ایک طرف ہو گیا ۔ نظریں نیچی رکھیں اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہ کی ۔ جب میں فیس دے چکی تو برسر صاحب نے تعارف کے انداز میں کہا " بی بی یہ اشفاق صاحب ہیں۔ یہ آپ کے ساتھ ایم اے اُردو کریں گے۔ ان کی فیس میں نے ابھی جمع کی ہے"۔
یہ میرا خاں صاحب سے پہلا تعارف تھا ۔۔۔۔۔۔
صفحہ 47 ۔۔۔۔۔
ابھی کتابیں کاپیاں رکھ کر سیٹل ہو ہی رہی تھی کہ ایک خوبصورت گورا چٹا اطالوی شکل و صورت کا نوجون اندر داخل ہوا ۔ اس نے لٹھے کی شلوار،نیلی لکیروں والا سفید کُرتا اور پشاوری چپل پہن رکھی تھی ۔ وہ ملائمت کے ساتھ آگے بڑھا اورمردانہ قطار میں مولوی طوطا کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
چند لمحے خاموشی رہی ۔ پھر نوجوان نے اپنا تعارف کرانے کے انداز میں کہا ۔۔۔ " خواتین و حضرات ! میرا نام اشفاق احمد ہے۔ میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور سے آیا ہوں ۔ ہمارے قصباتی شہر کا نام مکستر ہے۔ میرے والد وہاں ڈنگر ڈاکٹر تھے،پھر رفتہ رفتہ حیوان ِناطق کا علاج کرنے لگے ۔۔۔ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں اوراس وقت موج ِدریا کے بالمقابل 1۔۔۔۔ مزنگ روڈ میں رہتا ہوں ۔ میرے پاس ایک سائیکل ہے جس پر اس وقت میں آیا ہوں" ۔
یہ کہہ کر اشفاق احمد نے کلاس کے لڑکے لڑکیوں پر نظر دوڑائی ۔سب خاموش تھے ،ابھی اورینٹیشن کی کلاسوں کا رواج نہ تھا ۔ لوگ اپنا تعارف ،حدود اربعہ ،ہسٹری بتاتے ہوئے شرماتے تھے، صرف اشفاق احمد نے سب کی سہولت کو مد ِنظر رکھ کر اپنا آپ تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا۔
صفحہ :54 تا 62 ۔۔۔۔۔
"بڑھاپا ۔۔۔۔ از اشفاق احمد عمر 26 سال "
صفحہ : 75 تا 78 ۔۔۔۔۔۔
محبت اور خوف
صفحہ :79 ۔۔۔۔۔۔
ہر انسان چالیس کے لگ بھگ پہنچ کر مڈل لائف کے کرائسس اور اس سے جنم لینے والی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس عمر کو پختگی کی عمر کہہ لیجیے لیکن یہی عمر ہے جب عام آدمی بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے اور عمل میں ناپختگی کا ثبوت دیتا ہے۔ تبدیلی کو خاموشی سے قبول نہ کرنے کی وجہ سے کئی بار انسان کا امیج سوسائٹی میں بالکل برباد ہو جاتا ہے۔ پے درپے شادیاں، معاشقے، معیارزندگی کو بلند کرنے کے لیے دربدرکی ٹھوکریں، ماں باپ سے ہیجانی تصادم، اولاد سے بے توازن رابطہ، غرض یہ کہ اس عہد کی تبدیلی
میں زلزلے کی سی کیفیت ہوتی ہے۔
صفحہ :87 ۔۔۔۔
ذاتی ڈائری ۔۔ اشفاق احمد 1951
جب زندگی کے سارے باب بند ہو جاتے ہیں اور فرار کی تمام راہیں مسدود ہو جاتی ہیں تو موت چور دروازے سے آکرکہتی ہے
"آؤ بھاگ چلیں"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے لیے ماں کا وجود اُس ٹائم پیس کی طرح ہے جسے میں نے مدت سے چابی نہیں دی ،لیکن جسے میں کسی خاص صبح جاگنے کے لیے چلا بھی دیتا ہوں اور الارم بھی لگا دیتا ہوں ۔
صفحہ :92 ۔۔۔۔۔۔
پہلی باقاعدہ بے قاعدہ بات چیت
صفحہ :96 ۔۔۔۔
بانو قدسیہ ۔۔۔۔ نام کہانی
:: میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میرا پہلا افسانہ "داماندگیء شوق" ادب لطیف میں چھپ گیا ۔ وہ یہ رسالہ لے کر دستی میرے پاس آئے ۔ لیجیے مبارک ہو۔ ادبی سفر شروع ہو گیا
" رسالے کے اوپر لکھا تھا "کاش میں بھی ایسا ایک افسانہ لکھ سکتا
کہانی پر میرا نام بانو قدسیہ لکھا تھا ۔ یہ نام خاں صاحب نے اپنی طرف سے عنایت کیا تھا ۔اس کے بعد رفتہ رفتہ میرا یہی نام شہرت پکڑتا گیا اور میں اپنا آبائی نام قدسیہ چٹھہ خود بھی بھول گئی۔
یہ 'نام' کی بھی عجیب کہانی ہے۔
میری والدہ نے کبھی مجھے قدسیہ کہہ کر نہ پکارا ۔ وہ مجھے کاکی اور ریزی بھائی کو کاکا کہتی تھیں۔ لیڈی میکلیگن میں میری سہیلیاں جمیلہ ظفر ،امینہ ملک، انورملک اورآپی اقبال ملک مجھے"کو" کہہ کر پکارتیں ۔ میں بھی اس نام پر خوش رہی ۔ مفتی صاحب مجھے قدسی پکارتے رہے لیکن شہاب صاحب نے جب مجھے بانو کہہ کر بلانا شروع کیا توہر نام ماند پڑ گیا ۔ اب تک یہی نام مستعمل ہے ۔ چھوٹے بڑے مجھے "بانو آپا" کہہ کر پکارتے ہیں ۔
کہانی ایک محبت کی:
16 دسمبر 1956 ،455 این سمن آباد
اس دن میں نے پرانا سفید شلوار قمیض پہنا، قمیض تھوڑی سی پھٹی ہوئی تھی اشفاق صاحب معمولی لکیروں والے کرتے میں ملبوس تھے۔ مفتی جی، محمد حسین آرٹسٹ اور ڈیڈی جی براتی تھے۔ ریزی اور محمودہ اصغر میری والدہ سمیت مائیکہ والے تھے۔ نہ کوئی ڈھولک بجی نہ کوئی مہندی کی رسم ہی ہوئی۔
نکاح کے بعد اشفاق احمدخاں صاحب نے اپنی پاس بک میرے ہاتھوں میں
چپ چاپ تھما دی۔ اس میں نو سو روپے جمع تھے۔
بانو قدسیہ
Post a Comment
0 Comments